انتخابات کی شفافیت!!!

0
104
جاوید رانا

شکاگو شہر ان دنوں سٹی کونسل کے میئر و دیگر عہدوں اور وارڈز کے آلڈر مین کے انتخابات کی سرگرمیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ انتخابی مہم کا اہم ترین پارٹ میئر کی پوزیشن کے حوالے سے ہے جبکہ دوسرا اہم حصہ 50 وارڈز میں آلڈرمین کے درمیان مسابقت اور مقابلہ کا ہے۔ میئر کیلئے 9 امیدواروں میں بشمول موجودہ میئر لوری لائٹ فٹ انتخابی دنگل جاری ہے، اس پوزیشن کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 9 امیدواروں میں موجودہ کانگریس اراکین بھی ہیں، وجہ یہ کہ میئر اپنے اختیارات و مقتدر انتظامی حیثیت کے باعث مضبوط ترین آئینی و قانونی کردار کا حامل ہوتا ہے، پاکستان کی طرح میئر ریاست یا وفاق کا محتاج نہیں ہوتا۔ صرف یہی نہیں سٹی کے معاملات میں ریاست یا وفاق کی مقتدرین و پوزیشنز بھی اس کے دائرۂ کار و اختیار میں دخل اندازی کی مجاز نہیں کہ اس ملک (امریکہ) کے آئین، قوانین و انتخابی اختیارات میں اس کی کوئی اجازت یا گنجائش نہیں۔ انتخابی حوالے سے گنجائش تو اس بات کی بھی نہیں کہ امیدوار مخالفین کو نیچا دکھانے کیلئے ذاتیات یا فروعی معاملات کو اپنی مہم کا حصہ بنائیں، البتہ ایشوز کو بنیاد بنا کر انتخابی مہم چلائی جاتی ہے، کمیونٹی مختلف سماجی، کاروباری، معاشرتی اور میڈیا کے توسط سے اپنا مطمع نظر اور منشور واضح کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ الیکشن ڈے پر بھی تیسری دنیا خصوصاً پاکستان کی طرح کوئی جھگڑے، سیکیورٹی یا مخالفانہ سرگرمیوں کا تام جھام نہیں ہوتا۔ ووٹرز آزادانہ طور سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں اور پُرسکون ووٹنگ کے بعد نتائج کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ نہ جیتنے والے مخالفین کو ہدف بناتے ہیں اور نہ ہی شکست پانے والے کسی دھاندلی یا نا انصافی کا شور برپا کرتے ہیں۔ امریکہ میں انتخابی مہم اور رائے دہندگی کا یہ پروسیس ہر سطح پر یکساں ہی ہے، صدر کے انتخاب سے ایوان، سینیٹ اور وارڈ تک ایک ہی طریقۂ کار ہے اور ہر پوزیشن کا فیصلہ عوام کے حق رائے دہی کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔ صدر کے امیدوار سے وارڈ کے امیدوار تک ہر ایک کو عوام سے براہ راست عوام سے رابطہ اور اپنے منشور و اہداف کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے میئر شکاگو کے حالیہ 28 فروری کو ہونیوالے انتخاب میں موجودہ میئر لوری لائٹ اور حالیہ رکن کانگریس و میئر کے امیدوار جوئی گارسیا نے بالترتیب 5 اور 18 فروری کو اپنی انتخابی مہم کے ناطے پاکستان نیوز شکاگو کا دورہ کیا اور میڈیا، کمیونٹی اور مختلف شعبۂ ہائے زندگی کے افراد و اداروں سے ملاقات اور اپنے اہداف و منشور کی صراحت کی۔ انتخابی مہم کا یہ سلسلہ ایک متعینہ تاریخ تک رہتا ہے اور الیکشن ڈے پر بلا کسی شور شرابے ووٹنگ کا مرحلہ انجام پذیر ہوتا ہے۔ اب ذرا پاکستان کے سیاسی و انتخابی منظر نامہ کا جائزہ لیں تو ہم نے بچپن سے اب تک یہی دیکھا ہے کہ وہاں ان مراحل و معاملات میں عوام کا کردارمحض کٹھ پتلیوں کا ہوتا ہے جن کی رائے نہ مقدم ہوتی ہے اور نہ قابل اعتنا سمجھی جاتی ہے۔ان کی ڈور کہیں اور سے ہلائی جاتی ہے اور کامیابی کا تاج اس جماعت یا قیادت کے سر پر سجا دیا جاتا ہے جسے پیا چاہے کی سند مل جاتی ہے۔ عوام کی حمایت محض نعروں یا زیادہ سے زیادہ بریانی کی پلیٹوں تک رہتی ہے۔
پاکستان کی سیاست و انتخابی کیفیت بالخصوص گزشتہ سات عشروں سے جو رہی ہے اس کی تفصیل ہر پاکستانی کو بخوبی حفظ ہے، ہم اپنی استطاعت کے مطابق اس پر اظہار خیال بھی کرتے رہے ہیں لہٰذا تفصیل سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں کہ اس پتلی تماشے میں محض پردہ نشینوں کے نام ہی نہیں آتے بلکہ ہماری سیاسی خود غرض و مفاد پرست اشرافیہ کا بھی بدترین کردار آج تک ہے۔ جب بھی کسی محبوطن اور مقبول سیاسی قائد نے عوام اور ملک کے مفاد کے حوالے سے نعرۂ حق بلند کیا ہے تو کسی نہ کسی طرح منظر سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ماضی کے واقعات سے ہٹ کر اگر موجودہ صورتحال پر ہی نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ اقتدار سے محروم کئے جانے کی سازش کے نتیجے میں عمران کو جو عوامی مقبولیت و حمایت ملی ہے اور جس طرح ساری قوم اپنے قائد و کپتان کیلئے صف آراء ہے اس نے نہ صڑف موجودہ سیاسی و حکومتی مفاد پرستوں بلکہ ریاستی و فیصلہ سازی حلقوں کو بھی خوف میں مبتلاء کر دیا ہے۔ انہیں عوامی خواہش اور آئینی طریقہ کار کے انتخابی مراحل کے سامنے سے اس حقیقت کا خوف ہے کہ ایسا کرنے سے عمران خان نہ صرف عوام کی بھرپور سپورٹ و رائے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کریگا بلکہ سیاسی مخالفین کی سیاست کی تدفین اور فیصلہ سازوں کے کردار کے خاتمے کا موجب بھی ہوگا۔ ایک جانب تو وطن عزیز بدترین معاشی ابتری سے دوچار ہے کہ خودحکومتی اشرافیہ ڈیفالٹ کا اعتراف کر رہی ہے، لاء اینڈ آرڈر مخدوش ہے۔ دہشتگردی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی افراد و ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ عوام تنگ ہیں تنگدستی کے مہیب غار میں دھنسے ہوئے ہیں تو دوسری جانب آئی ایم ایف و دیگر عالمی اداروں اور قوتوں کے دبائو کے باعث اب خدشات نیوکلیئر اثاثوں سے دستبرداری (خاکم بدین) کی خبریں یا افواہیں جنم دے رہے ہیں۔ اب اس میں کتنی صداقت ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے یا وہ جو اس وقت اقتدار میں ہیں یا ملک کے تحفظ و سلامتی کے ذمہ دار ہیں۔
ان بدترین حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام قومی اسٹیک ہولڈرز حالات کی بہتری کیلئے مجتمع ہو کر حالات کی بہتری اور قومی اتحاد کیلئے مشترکہ طور پر ایک لائحہ عمل پر متفق ہوتے اور عمل کرتے لیکن اقتدار کے بھوکے اور عمران سے خوفزدہ سیاسی و حکومتی اور ریاستی ٹولے انتخابات سے فرار اور عمران کو سیاست کے نقشے سے دور کرنے کی خواہش میں اس پر مقدموں، آڈیوز، ویڈیوز کے توسط سے حتیٰ کہ اس کو خدانخواستہ ختم کر دینے کی گھنائونی سازشوں میں مصروف ہیں لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کے مصداق عمران خان اپنے بولڈ اور واضح نکتۂ نظر نیز عوام میں بے تحاشا و غیر متزلزل مقبولیت کے باعث مخالفین کے حلق کا کانٹا بنا ہوا ہے۔ اسی باعث اقتدار کے بھوکے اور اپنے انجام سے خوفزدہ غرض کے مارے جمہور و آئین سے انحراف پر تلے ہوئے ہیں۔
ہم نے ابتدائی سطور میں سٹی آف شکاگو کے حوالے سے امریکہ میں انتخابی پراسیس کی وضاحت اس لئے بھی کی ہے کہ ان پاکستانی رہنمائوں کو احساس دلا سکیں کہ کسی بھی ملک وقوم کی ترقی، استحکام و خوشحالی کی بنیاد عوام کے اعتماد و اعتبار سے منسلک ہے اور امریکہ اس کی بہترین مثال ہے۔ وطن عزیز میں الیکشن سے محض اس لئے فرار اختیار کیا جا رہا ہے کہ عمران آجائیگا۔ موجودہ حکمرانوں کی سیاسی کشتیاں مکمل ڈوب جائیں گی۔ بہتر طریقہ یہی ہے کہ عوام کی رائے مقدم رکھی جائے حالات اب اس نہج پر آگئے ہیں کہ صدر مملکت نے 9 اپریل کو پنجاب و کے پی میں انتخابات کے انعقاد کا حکم دیدیا ہے۔ مخالفت کرنیوالی درآمدی حکومت سپریم کورٹ جانے کی تمہید کر رہی ہے لیکن وہ یہ بھول گئی ہے کہ صدر مملکت و ریاست کا سربراہ ہے اور آئین کے آرٹیکل 57 کے تحت بااختیار ہے۔ ہمارا مؤقف ہے کہ ملک و قوم کی بقاء انتخابات میںہے اور امریکی انتخابات کے توسط سے یہ ملک دنیا کا مضبوط ترین ہے۔ پاکستان کے حالات کی خرابی کی وجہ یہی ہے کہ یہاں انتخابات کبھی شفاف نہیں ہوئے۔ بس یہی فرق ہے انتخابات شفاف کرانے اور انتخابات میں جھرلو کرنے اور تاخیری حربوں کے استعمال سے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here