نیویارک(پاکستان نیوز) سینیٹر لنزے گراہم نے مملکت کے دورے کے بعد کہا ہے کہ وہ سعودی عرب سے متعلق اپنی رائے بدلنے کا حق رکھتے ہیں۔ عرب نیوز کے مطابق امریکی ریپببلکن پارٹی کے جنوبی کیرولینا سے منتخب ہونے والے سینیٹر لنزے گراہم گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے دورے پر آئے تھے۔ انہوں نے سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی اور 37 ارب ڈالر مالیت کے بوئنگ 787 طیاروں کی خریداری پر مملکت کا شکریہ ادا کیا تھا۔ سینیٹر نے اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی کے پروگرام دِس ویک میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے دورے کے بعد مملکت اور وہاں ہونے والی اصلاحات کے بارے میں اپنے خیالات کو تبدیل کیا ہے۔ اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران العربیہ کی فاطمہ فہد سے بات کرتے ہوئے لنزے گراہم نے کہا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بدل گئی ہے، سعودی عرب نے نئی سمت اختیار کی ہے لیکن 2018 کے اثرات ابھی بھی نمایاں ہیں۔ انہوں نے کہا لیکن یہاں میں نے ایسی چیزیں دیکھیں جو میرے خیال میں ممکن نہیں تھیں۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ سب باتیں ہیں، تو میں حقیقت جاننے کے لیے خود یہاں آ گیا۔ میں گھر واپس جانے والا ہوں اور اپنے ساتھیوں کو کہوں گا کہ انہیں سعودی عرب جانا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ سینیٹر نے کہا کہ آپ نے میری ریاست اور میرے ملک میں بنائے گئے 37 ارب ڈالر کے طیارے خریدے، میرے خیال میں مزید آنے والے ہیں، تو بطور امریکی سینیٹر میں اپنی رائے بدلنے کا حق رکھتا ہوں۔ سعودی عرب نے بھی اپنی سمت بدلی ہے۔ انہوں نے مملکت میں وژن 2030 کے اصلاحاتی پروگرام کی تعریف کرتے ہوئے واشنگٹن پر زور دیا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ مضبوط روابط استوار کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھائے۔ اگر آپ وژن 2030 حاصل کر لیتے ہیں تو یہ سعودی عرب کو ایک سیاحتی مقام بنا دے گا، یہ اسے ایک بہتر بزنس پارٹنر بنائے گا، اور ہم اس لمحے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ عسکری اور معاشی طور پر تزویراتی اتحاد بنا سکتے ہیں۔ سینیٹر لنزے گراہم کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں امریکی دلچسپی احتیاط اور موقع کے حوالے سے تھی۔ امریکی کمپنیاں جوہری توانائی کے پروگرام کے لیے مملکت کے منصوبوں کو تیار کرنے میں مدد کر سکتی ہیں جو ایران کے برعکس پرامن مقاصد کے لیے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہاں موقع کی تلاش میں ہیں، (امریکہ-سعودی) تعلقات کو آگے بڑھانے کا یہ بہترین موقع ہے جو دہائیوں بعد میں دیکھ رہا ہوں۔ سینیٹر کا مزید کہنا تھا کہ وہ مشترکہ دشمنوں کے خلاف دفاع، مملکت کو ہتھیاروں کی فروخت اور امریکی سکولوں میں سعودی افسران کی تربیت جاری رکھنے کے لیے عسکری طور پر تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں۔