”لبرنٹے، لبرل آنٹیاں”

0
306
شبیر گُل

قارئین کرام آپ نے یقیناً یہ لفظ پہلی بار سْنا اور پڑھا ہوگا، لبرنٹے دراصل دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ جو لبرل اور انڈے کا مْخفف ہے۔ لبرل وہ جو اسلامی شعائر کومنہ ٹیڑھا کرکے گالی دیتے ہیں اور انڈے وہ جو پاکستان اور نظریہ پاکستان کو گالی دینا فرض سمجھے ہیں۔ یہی وہ گندے انڈے ہیں جن کے بارے ایک امریکن جج نے کہا تھا کہ پاکستانی پیسوں کے لئے اپنی ماں بیچ دیتا ہے۔ جیسا کہ ایک پاکستانی گندے انڈے (پولیس آفیسر )نے اپنی بہن عافیہ صدیقی کو سی آئی اے کے ہاتھوں فروخت کیا تھا۔جیسے یہ لفظ اردو کی کسی ڈکشنری میں نہیں ، ویسے ہی ان مادر پدر آزاد آنٹیوں کی نظریاتی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔یہ لفنٹے، لوونڈے اور بھڑوے مغربی آقاؤں کی ہڈیوں کے عوض اسلامی تہذیب و تمدن ،اخلاقی اقدار ،اسلامی شعائر پر بھونکتے نظر آتے ہیں۔ یہ گماشتے کبھی عورت مارچ ، کبھی حقوق نسواں اور کبھی انسانی حقوق کے نام پر قرآن و سنت کا مذاق اْڑاتے نظرآتے ہیں۔ آئین اور قانون کے رکھوالوں کی موجودگی میں ، ٹی وی ،میڈیا، ہر محکمہ میں نظریہ پاکستان کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ درحقیقت گوشت کی خفاظت پر ہم نے بلے بٹھا رکھے ہیں۔ فحاشی،عریانیت اور بے پردگی کی یلغار ہمارے اخلاقی اقدار کے خلاف طے شدہ منصوبہ ہے۔ تاکہ ہمیں نظریاتی طور پر کھوکھلا کیا جائے۔ایک خاموش طوفان یہ سب کچھ دیکھ کر کْڑ رہاہے۔ جو کسی بھی وقت لاوا بن سکتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے امریکی صحافی کو انٹرویو میں اسلامی معاشرت کا دفاع کرتے ہوئے، ننگے پن کو اخلاقی بے راہ روی اور پاکستانی کلچر کے خلاف فحاشی قرار دیا جس سے ویسٹرن کلچر کی دلدادہ آنٹیوں اور مغرب کے تنخواہ دار دْمچوں نے چیخ و پکار سے سرآسمان پر اُٹھا لیا ہے۔ چند ماڈرن ملعون ،آزاد ی اظہار کے نام پر گستاخی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں۔ نظریہ پاکستان کے خلاف بکواس کرتے ہیں۔ نکاح کو غیر ضروری اور same gander میرج کے حق میں ریلیاں نکالتے ہیں لیکن ان بے حیاؤں کو کوئی لگام ڈالنے والا نہیں۔ خدارا! معاملات کی نزاکت کا ادراک کیجئے !۔
کہیں ان چند مْٹھی بھر مغربی گماشتوں کو لوگ چوک اور چوراہوں پر سرعام لٹکانا نہ شروع کردیں۔ جب قانون حرکت میں نہ آئے تو عوامی غضب کا طوفان ایسے تنکوں کو حس و خاشاک کیطرح بہا لے جاتا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اب ملک میں کوئی فحش فلم نہیں چلے گی اور نہ کوئی بالی وْڈ بننے کی کوشش کرے۔انتہائی خوش آئین ہے۔ مغرب کے بھڑوے خود غرض قلم فروش صحافی عمران خان کے پردہ کے بیان پر بہت چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ جو قلم کے نام پر بد نما داغ ہیں حالانکہ اللہ رب العزت نے قلم کی حرمت کی قسم کھائی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم نے کہا کہ بد فعلی کرنے والوں کو نامرد کردیا جائے جس پر بے شرم آنٹیوں اور بے حیاء لبرل مافیا نے اسے غیر انسانی قرار دیا۔ میں اس خونی لبرلز سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ بدفعلی کرنے والے جانور درندوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یا اخلاقی روایات کے ساتھ۔ میرا وزیراعظم سے مطالبہ ہے کہ اگر بدفعلی کرنے والوں کو نامرد کرنے کا قانون لایا جائے تو ساتھ ہی اْن آنٹیوں کا قانون بھی لایا جائے جو بغیر نکاح بے حیائی کے فروغ کا سبب ہیں تاکہ نکاح کے خلاف ، اخلاقی بے راہ روی پھیلانے والی اور آدھے کپڑے پہننے والی فحش عورتوں کو بے حیائی پھیلانے کا موقع نہ مل سکے۔یہ آنٹیاں حقوق نسواں اور ہیومن رائٹس کی بات کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کی چیمپئن شور اور واویلا تو بہت کرتے ہیں لیکن جب جنسی درندوں کو پھانسی دینے کی بات کی جائے تو یہی سزاؤں کے خلاف کھڑے ہو جاتیہیں۔ دراصل یہ لبرنٹے اس جرم کے سہولت کارہیں۔ یہ بد بخت زنا برضا کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن زنا بالجبر کے خلاف کھڑے ہوجاتیہیں۔ زنا کسی بہی شکل میں ہو اسکی سرعام سزا ہونی چاہئے۔جو قرآن نے تجویز کی ہے۔ لبرلز کہتے ہیں کہ پاکستان کا سافٹ امیج بلڈ کرنا چاہئے۔ معاشرہ ماڈریٹ ہونا چاہئے ، کیا سافٹ امیج بے حیائی کو فروغ دینے سے ہوگا؟ سیم سیکس میرج کو پروموٹ کرنے سے ہوگا۔؟ میں اْن منافق صحافیوں سے پوچھتا ہوں جو دن رات ، اسلامی شعائر کے خلاف لکھتے اور بدبختوں کے نظریات کو اْبھارتے ہیں۔ کیا یہ درندے ہماری تہذیب و ثقافت کے خلاف کل پْرزے نہیں ہیں ؟ جو جنگلوں کا معاشرہ واپس لانا چاہتے ہیں۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے خلاف لکھ کر یہ منافقین کس کی خدمت کر رہے ہیں۔ خبروں میں سراسیمگی پھیلانا، فحاشی اور عریانیت کو فروغ دینا تو نظریہ پاکستان نہیں تھا۔ اور نہ ہی اس مقصد کے لئے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دی تھیں۔یہ خونی لبرل مافیا حالت کو اس نہج پر نہ لے جائیں جہاں انکے لئے سانس لینا مشکل ہوجائے۔ لوگ ان کی بیہودگیوں سے تنگ آکر انہیں پکڑ پکڑ کر سرعام سزائیں دینا شروع کردیں۔ وزیراعظم کے انٹرویو کے بعد ہمارے چند لبرل صحافیوں کارنڈی روناجاری ہے۔ جنہوں پہلے کہا کہ عمران خان نے امریکہ کو اڈے دے دئیے ہیں۔ جب وزیراعظم نے امریکی صحافی کو Obsoletely not کہا تو یہ غلط تشریح کرتے رہے۔ اب مکمل انٹرویو آنے پر یہ مْٹھی بھر اسطرح وزیراعظم پر چڑھ دوڑے ہیں جیسے ہم یورپی معاشرہ میں رہتے ہیں۔ ہماری اخلاقی اقدار اور روایات ہیں جن کو چھوڑ کر ہمارا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے، جب قانون سخت ہوگا، سزاؤں پر عمل ہوگا تو مدارس درندے مولویوں سے ، چوک اور چوراہے بدکاری سے ، بچے اور بچیاں ریپ سے مخفوظ رہ سکیں گے۔ پورن ویڈیوز ، ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر vulgarity کا خاتمہ ہونا چاہئے۔sexual harassment کا سدباب سخت سزاؤں۔ ریپ اور بدفعلی کے مجرموں کو سرعام پھانسی سے ہی ممکن ہے۔ جن سزاؤں کی مخالفت یہ خونی لبرنٹے کرتیہیں۔ وزیراعظم صاحب ! قدم بڑھائیے قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے ، یہی موقع ہے ان مادر پدرآزاد ننگے اور بے حیاؤں کو دفن کرنے کا۔آئین کے مطابق فحاشی اور عریانیت پھیلانے والوں کے اوپر سخت ہاتھ ڈالا جائے۔ آج ڈرامے وہ دکھائے جارہے ہیں جن کا ہماری تہذیب و کلچر سے دور کاواسطہ نہیں۔ سوشل میڈیا ، ٹی وی اور اخبارات فحاشی و عریانی پھیلانے کاسبب بن رہے ہیں۔ ان ماڈریٹ بابوؤں اور لبرل آنٹیوں کی باجی ملالہ یوسفزئی نے نکاح کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔ جس پر ہمارے کچھ فروخت شدہ صحافی دفاع کرتے نظر آئے۔ وزیراعظم نے درست کہا ہے کہ ہمارے ملک میں نائٹ کلب نہیں جہاں عورت کو کپڑے اتارنے کی آزادی دی جاسکے۔
عورت کے پاس سب سے بڑی فخر کی چیز اْس کی حیاء ہے۔ جب حیاء نکل جائے تو عورت فاحشہ کہلاتی ہے۔ وفا نکل جائے تو عورت بدچلن کہلاتی ہے۔ وزیراعظم صاحب سوسائٹی کو ان آوارہ ذہنیت کی بیماری آنٹیوں سے محفوظ کیجئے،ان کو لگام ڈالئے۔وگرنہ اسکے بھیانک مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ معاشرہ کی غالب اکثریت ان مغربی پالتو جانوروں سے تنگ ہے ، عورت مارچ کے نام پر فحاشی سے تنگ ہے۔ عورت کے حقوق کے نام پر عورت کی تضہیک سے تنگ ہے۔ لبرنٹے ہمارے معاشرہ کو داغدار کرنے کی کوشش میں ہیں یہ وقت ان ویسٹرن فنڈڈلبرلز کو لگام ڈالنے کا ہے تاکہ یہ ناسور مزید پنپ نہ سکے۔یہ وقت ٹی وی اور سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کو آئین پاکستان کے مطابق چلانے کا ہے۔ وگرنہ وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ لوگ ان نام نہاد این جی اوز اور انکے تنخواداروں کو اپنے آپ سزائیں نہ دیناشروع کردیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here