کیا آپ کسی ایسے انسان کو جانتے ہیںجو لڑکپن سے فنون لطیفہ سے لے کر سیاست اور سماجی تحریکوں کا حصہ رہا ہوجس نے دوسروں کے حقوق کے لئے سرعام بھوک ہڑتال کی ہو۔کالج کی سرگرمیوں میں جیتتارہا ہو۔غریب او امیر سے کندھا ملا کر چلا ہو، شاعری میں نظم کے شعبے میں تسلسل سے آمریت پر کاری ضربیں ماری ہوں۔اور یاداش میں تعلیمی اداروں میں اس پر پابندی لگا دی گئی ہو۔اور وہ اسی آمریت کے زمانے میں ایک دبنگ طالبعلم لیڈر اور شعلہ بیاں مقرر کی حیثیت سے حیدرآباد کے سینٹرل جیل میں فیض احمد فیض سے ملنے گیا ہو۔یہ بات کسی کو شاید معلوم نہ ہو لیکن میں اسکے ساتھ تھا۔جب اس نے چھوٹا سا خیمہ لگا کر سندھی زبان کے لئے بھوک ہڑتال کی تھی۔”فیض احمد فیض نے کہا تھا” شکریہ تم ملنے آئے میں تمہاری شاعری پڑھتا رہا ہوںاور نام بھی سن چکا ہوں۔بعد میں فیض احمد فیض نے اسکی شاعری پر یہ الفاظ ڈالے تھے۔”شرر کی شاعری میں زندگی اور سماج ہیت وترتیب ایک نئے فکری آہنگ کے ساتھ اُبھری ہے۔”جی ہاں!اس شخص کا نام یونس شرر ہے۔وہ ہم سب سے جدا ہو کر ڈھیر ساری یادیں چھوڑ گیا ہے۔وہ ایک ہی سوچ رکھتا تھا۔ظلم اور سامراج کیخلاف ساٹھ کی دہائی نے ہمیں سندھ سے دو دیوہیکل ارادوں کے پکے، اپنی سوچ اور فکر کو اپنے خون میں لے کر چلے تھے۔دوسرا شخص جام ساقی تھاجو ہاری(کسان)تحریک کا لیڈر تھا اور آخر ی وقت تک اینٹوں کے بوسیدہ گھر میں رہتا تھا شرر اور ساقی دونوں میرے ہم عصر سالی طور پر کنگال اور بھوک وپیاس میں ڈوبے اپنی منزل کی طرف سرکرداں تھے۔کیا دونوں کو منزل مل گئی جواب ہاں بھی ہے اور نہ بھی چی گوارا جو ڈاکٹر تھا۔اور مالدار گھرانے کا فرزند تھا۔اور ایک دن جب وہ اپنے دوست کے ساتھ موٹرسائیکل پر سائوتھ امریکہ کے غریب ملکوں کی سیر کو نکلا تو واپسی میں وہ گوریلا لیڈر بن چکا بھوک اور افلاس اور بیماری سے مرتے بچوں کو دیکھ کر اس نے سامراج کیخلاف آواز اٹھائی۔مارا گیا لیکن زندہ رہ گیا ہمیشہ کے لئے یہ تھی اس کی منزل اور اس کا نام ہی سامراج کے ماتھے پر شرم اور بے حسی کا عکس تھا۔یونس شرر کے لئے میں کہونگاجو فیض احمد فیض نے کہا تھا جن سے وہ حد درجہ متاثر تھا۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
طالب علمی کے زمانے میں اس نے مباحثوں میں اپنے کالج کے لئے شعلہ بیاں تقاریر کرکے ٹرافیوں کی لائن لگا دی۔شرر کا ہم پر عصر قمر علی عباسی تھا اور دونوں کی ٹیم سندھ سے باہر کسی بھی مقابلے میں مخالفوں کے دل ودماغ پر تہلکہ مچا دیتی تھی۔پھر یونیورسٹی میں دوسرے سال میں شرر کو تحریک کے بانی کی حیثیت سے خمیازہ بھگتنا پڑا لیکن وہ یہاں سے نکل کر کراچی جا پہنچا اور کراچی یونیورسٹی میں اپنی وجاہت اور گفتگو اور شاعری سے سب کی پسند بن بیٹھا۔اسٹوڈنٹ یونین کا انتخاب لڑا ور جنرل سیکرٹری بن بیٹھا اس عہدہ کا فائدہ اٹھا کر اس نے لاتعداد طلباء کو فیض پہنچایا جو فیس دینے کے قابل نہ تھے۔کراچی میں میری ملاقات ہوئی تو ماضی کا شرر بدلانہ تھا۔وہ ہی بے چینی وہ ہی جستجو وہ ہی ہنگامہ خیز زندگی جو لوگ اس دور میں اس کے ساتھ تھے وہ اس وقت کی طالب علمانہ زندگی کو بھولے نہ ہونگے اسکی گواہی، صبیحہ صبا اور طاہرہ حسین ہیں۔شرر نے شاعری کے میدان کو اپنایا تو نام پیدا کیا۔شاعری میں فیض کا رنگ تھا لیکن احساسات شرر کے اپنے تھے اور ان میں اُمیدیں پنہاں تھیں۔
فصل کھیتوں میں اُگے جسم نہ بیچے جائیں
راکھ کھلیان سے اٹھے تو وہ گندم بن جائے
اور پھر بڑے اعتماد سے اس نے مٹھی ہوا میں لہرا کر کہا تھا
ہم سے کھیتوں کھیتوں سونا
ہم سے دریا دریا چاندی
اپنے ہاتھ اٹھیں تو طوفاں
اپنے ہاتھ اٹھیں تو چاندی
اسے خود پر اعتماد تھا،اپنی جدوجہد پر اعتماد تھا اور نوجوانوں پر بھرپور اعتماد تھا کہ اسکی جلائی ہوئی شمع کا وہ پاس رکھینگے۔اسے نہیں معلوم کہ پہ درپہ آمریت پھیل رہی ہے۔وہ زمین میں اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے اور اس کے اس یقین کو پاش پاش کرکے دم لے گی۔
جن کے سینوں میں آگ جلتی ہے
زندگی ان کے ساتھ چلتی ہے
زندگی تو اس کے ساتھ چلی لیکن آمریت کے روپ میں سامراج ایسے جیالوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑا رہا نتیجے میں وہ1985میں پاکستان کو خیرباد کہہ کر خالی جیب اور بے سرو سامان امریکہ میں آبسا اپنے تین بیٹوں اور اہلیہ کے ساتھ اگلے بیس سال میں اس نے وہ کام کئے کہ لگا وہ کسی جرم کی سزا کاٹ رہا ہوں۔وہ ایک دانشور، رہنما، شاعر،تدریس کے پیشے سے تعلق رکھتا تھا۔مجھے اس نے اپنی یہاں کی شروع کی زندگی بتائی جب وہ مجھے15سال پہلے ملا۔ہم دونوں دوبارہ پارے کی طرح جڑ گئے علمی، ادبی، مذاکروں اور دوسری سماجی، معاشرتی تنظیموں میں اپنی پہچان کا دوبارہ اجراء کیا ایک بار پھر سے اجنبی دیس میں اپنے اردگرد ادیب، شاعر اور مختلف تنظیموں کے کارکنان کا دل بن گیا۔حلقہ ارباب ذوق کی سرپرستی میں کئی بڑے بڑے پروگرام ہوئے۔وہ بغیر تھکان اور وقفے سے پاکستانی ماحول میں اپنے تئیس کنکریاں پھینک پھینک کر لہریں پیدا کرتا رہتا تھا۔میرے ساتھ گزرے وقت کو وہ تیرا دوسرا جنم، کا نام دیتا تھا۔کبھی میں تھک جاتا تو کہتا”پیارے جدوجہد کرتے رہو سوچ کو تقویت ملتی ہے۔لوگوں کے اردگرد ہو، انسانوں کو جاننا سیکھو گے۔ہجوم میں تمہارا ہم خیال ملے گا اور مشیر طالب اس بات کا ثبوت تھا۔ہم دونوں تین ماہ پہلے تک اس سے ملتے تھے پھر اچانک مشیر طالب ہم سے بچھڑ گیا۔اور میرا جانا رک گیا شرر کی راتیں اور دن ہسپتال کی نذر ہوگئیں۔یکے بعد دیگرے وہ جان لیوا بیماریوں سے لڑتے لڑتے خاموش ہوگیا۔میرے لئے وہ تین ماہ پہلے ہی دور ہوچکا تھا۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے اپنی جدوجہد میں اپنے بچوں اور بیگم کو بھی نظرانداز کیا وہ اپنی روش بدل نہیں سکتا تھا۔وہ سفر جو اس نے40سال پہلے شروع کیا تھا،جاری رکھنا چاہتا تھا اسکے چاہنے والوں کا ہجوم پاکستان، ہندوستان، کناڑا، شمالی امریکہ میں جگہ جگہ تھا۔آج کے دور میں جہاں مشہور، شخصیات کسی تقریب میں آنے کا معاوضہ طلب کرتی ہیں۔شرر نے اپنی جیب کو خالی رکھا اور ڈھیروں یادیں دے کر چلا گیا۔
اس کی شاعری اسکی خدمات کے صلے ہیں۔گلزار جاوید نے اپنے ماہنامہ”چہارسو”جو پنڈی سے شائع ہوتا ہے۔میں شرر کے نام ایک شمارہ وقف کرکے خراج تحسین پیش کیا۔ان ساٹھ سالوں میں شرر صرف20سال تک گمنام رہا اسکے بعد وہ ہی شب و روز جب ان کی شہریت کا نیویارک میں مقیم پروفیسر ڈاکٹر غیاث الدین فاروقی کو علم ہوا تو انہوں نے ایک ضخیم کتاب شرر اور انکی زندگی سے جڑے دوسرے کارناموں اور فنون لطیفہ سے متعلق ایک کتاب ترتیب دی۔”ملیب اور سائبان۔پروفیسر سید یونس شرر”جس کی تقریب نیویارک کی ادبی فضا میں ہمیشہ یادگار رہے گی۔
کراچی کی تہلکہ آمیز زندگی میں وہ بینظیر بھٹو کے دست راست تھے۔انہیں کچی آبادی کے رہائش پذیر عوام کا شروع سے ہی خیال تھا۔اور اس میں انہیں کامیابی ملی اور نام کمایا۔شاعری کے میدان میں انکا زیادہ کام نظم کے میدان میں ہے۔جن میں”ملیب اور سائبان”، میں اکیلا تو نہیں”ڈسٹ بن، کارڈیوگرام، کہانی بے خواب راتوں کی، نوشتہ دیوار، دیوار گریہ اور ”قیمت شگفت”شاہکار نظمیں ہیں۔جن پر فیض احمد فیض، ڈاکٹر ابوللیث کیفی اعظمی، جمیل الدین عالی، مشفق خواجہ، حمایت علی شاعر اور محسن بھوپالی ایسے بڑے نقاد، دانشور اور شعراء کے بے لاگ تبصرے ہیں۔
ان کی جملہ خوبیوں کا جائزہ لکھنے کے لئے سینکڑوں صفحات درکار ہیں لیکن جگہ کی قلت،مجبوری بنی ہے۔کہ یونس شرر کا یہ شعر جو انہوں نے اسکول کے زمانے میں کہا تھا رقم کرتے ہیں۔
رہینگے ایسے ہی موت وحیات کے چرچے
کبھی قضائے کبھی زندگی نے لوٹ لیا
٭٭٭٭