نیویارک کی تمام مساجد میں اذان کیلئے لاؤڈ اسپیکر کی اجازت

0
38

نیویارک (عظیم ایم میاں)نیویارک سٹی کی انتظامیہ نے اصولی طورپر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ شہر کی تمام مساجد کو بتدریج اذان کیلئے مناسب اور متوازن ساخت کا لائوڈسپیکر استعمال کرنے کی اجازت دی جائے، امریکا میں تاریخ ساز فیصلہ،اطلاق بتدریج ہوگا ، یہ بات نیویارک سٹی گورنمنٹ کے ذمہ دار ذرائع نے پاکستان نیوزکو بتائے ہوئے کہا ہے کہ حال ہی میں نیویارک شہر کی مسلم اقلیت کی مساجد کو اذان کیلئے لائوڈاسپیکر کے استعمال کی اجازت دینے کے بارے میں زیرغور تجویز پر عمل کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے تاہم مساجد کے اردگرد رہائش پذیر غیر مسلم اکثریت کے حقوق اور رائے کا احترام بھی کیا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق نیویارک سٹی کے میئر ایرک ایڈمز اوور ان کے ماتحت پولیس ڈپارٹمنٹ نے نیویارک شہر میں 200سے زائد مساجد کو اذان کیلئے لائوڈاسپیکر استعمال کرنے کی اجازت دینے کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے تاہم ہر مسجد سے ملحقہ علاقے میں غیرمسلم اکثریت آبادی کے آرام، حقوق اور ماحولیاتی قواعد کے پیش نظر لائوڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت کا سلسلہ بتدریج شروع کیا جائے گا۔ ہر علاقہ اور مسجد کو لوکیشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسجد کے اردگرد آباد شہریوں کی نیند اوور آرام میں خلل کی شکایات کے ازالہ کیلئے بھی گنجائش رکھی گئی ہے۔ جن مساجد کے اردگرد مسلم آبادی کی اکثریت ہے وہاں مناسب آواز کے لائوڈاسپیکر پر اذان کے ذریعے نماز کی آگاہی کی اجازت ہوگی، جبکہ فجر کی اذان کے بارے مساجد کے اندر نصب اور موجودہ اسپیکرز پر اذان دی جاسکے گی جہاں مساجد مسلمانوں کاروبار اور آبادی سے گھری ہوئی ہیں وہاں متوازن نوعیت کے لائوڈ اسپیکر پر نماز سے قبل اذان کی اجازت ہوگی۔ اس لحاظ سے نیویارک سٹی کے میئر ایرک ایڈمز انکی انتظامیہ اور پولیس ڈپارٹمنٹ کے اشتراک سے یہ تاریخی فیصلہ ممکن ہوگیا ہے اور اس پر بتدریج عمل کیلئے نیویارک سٹی کے پولیس کے تھانے اپنی اپنی حدود میں اس اصولی فیصلہ پر عمل درآمد کرنے کا اختیار ہوگا تاکہ مقامی آبادی تقاضوں اور ضروریات کے مطابق فیصلے کئے جاسکیں۔ نیویارک سٹی کے میئر ایرک ایڈمز اس وقت اسرائیل کے دورے پر ہیں انکی واپسی کے بعد اذان کی اجازت کے فیصلے پر بتدریج عمل شروع ہونے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ نیویارک کے علاقے بروکلین کی جامع مسجد مکی میں اذان کیلئے لائوڈاسپیکر کی اجازت پر عمل ہورہا ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here