گزشتہ کالم میں ہم نے سوال کیا تھا ”ریاست کہاں ہے” گزشتہ ہفتے جو کچھ ہوتا رہا اور تادم تحریر حالات جس رُخ پر جانے کی نشاندہی کر رہے ہیں اس حوالے سے غالب کا مصرعہ بار بار ہمیں جھنجوڑ رہا ہے ”حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں”۔ وطن عزیز بظاہر تو ایک سیاسی بحران میں ہے کہ دو تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات آئین کی رُو سے 90 دن کی مدت میں کرا دیئے جائیں لیکن کیا اس کے علاوہ ملک کے حالات بہتر ہیں کہ عوام سکون میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر گز نہیں۔ کراچی سے گلگت اور بلوچستان تک امن و امان، معیشت، عوام کی کسمپرسی اور وطن کی سلامتی کو درپیش صورتحال کسی طور پر بھی مثالی قرار نہیں دی جا سکتی۔ ایک جانب دہشتگردی کا جن شیطانی رقص کر رہا ہے تو دوسری جانب عوام بھوک، افلاس، جرائم بالخصوص ڈکیتیوں و لُوٹ مار کے نرغے میں ہیں، لاء اینڈ آرڈر کا دُور دُور تک نشان نظر نہیں آتا ہے۔ دیس کے تحفظ و بقاء کیلئے وطن کے بیٹے، وطن دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے تقریباً ہر روز ہی جام شہادت پی رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل بریگیڈیئر سے سپاہی تک شہادتوں کا یہ سلسلہ تھم نہیں رہا ہے تو دوسری طرف ڈاکوئوں نے مار دھاڑ و لُوٹ مار کیساتھ معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کا بازار گرم رکھا ہوا ہے۔ یہی نہیں اس ماہ مبارک میں زکوٰة، افطار و سحر اور غریبی و احتجاج کے مارے لوگ بھی ہلاکتوں اور مضروبی سے دوچار ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کی تازہ ترین مثالیں کیچ میں قوم کے محافظ بیٹوں کی شہادتیں، ڈاکوئوں، لٹیروں کے ہاتھوں خصوصاً کراچی میں ہلاکتیں اور سائٹ کراچی میں زکوٰة کے حصول کیلئے عورتوں، بچوں کی جانیں جانا ہے۔ آخر یہ سب کچھ ہونے کی وجہ کیا ہے، اور اس کی ذمہ داری کس پر ہے۔
کسی بھی ملک اور عوام کی خوشحالی، تحفظ اور معاشی تیقن کیساتھ سیاسی ماحول کی سازگاری اس ملک کے حکمرانوں، سیاسی اشرافیہ،سیکیورٹی اداروں اور امن و امان کے ذمہ داروں پر ہوتی ہے جو ملک کے قانون و آئین کے مطابق عمل پیرا ہو کر اپنے فرائض و ذمہ دار یوں کو ادا کرتے ہیں۔ ایک قول ہے کہ جسم میں سڑاند کا آغاز اس کے سر سے ہوتا ہے ایک ملک کو اگر جسم سے مشابہت دی جائے تو اس کے آئینی، انتظامی (حکومت و سیاسی اشرافیہ) سیکیورٹی و عدالتی ادارے سر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وطن عزیز کے ان تمام اداروں میں اس وقت جو کیفیت ہے اور جس طرح یہ آپس میں برسرپیکار ہیں اس امر کی شہادت ہے کہ جسد پاکستان کوسڑاند کا خطرہ لاحق ہے اور اس کی سرجری خصوصاً سر کی سڑاند کو ختم کرنا لازم ہو گیا ہے۔
اس تمام تر صورتحال کے حوالے سے ہم مسلسل اظہار کرتے رہے ہیں اور حالات کی بہتری کیلئے ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے ذمہ داروں سے التماس بھی کرتے رہے ہیں لیکن ہماری ہی کیا ہر پاکستانی کی آواز صدا بصحرا ہی ثابت ہوئی ہے۔ اقتدار و اختیار کیلئے یہ معرکہ آرائی گزشتہ سات عشروں سے جاری ہے لیکن ”مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی” کے مصداق خود غرضی و مفادات کا یہ کھیل اب ان حدوں کو پہنچ چکا ہے جہاں صرف اندھیرا ہی ہے اور روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی ہے۔ ہم نے اوپر کی سطور میں عرض کیا ہے کہ وطن عزیز کا حالیہ سیاسی بحران دو صوبائی اسمبلیوں (پنجاب و کے پی) کی تحلیل کے بعد آئین کی رُو سے 90 دن میں کرانے کے ایشو پر ہے۔ موجودہ نا اہل حکومت کے انتخابی معرکے میں شکست کے خوف اور اس کے باجگزار یا پروردہ الیکشن کمیشن و ہتھکنڈوں کے باعث نہ صرف ملک سیاسی عدم کا شکار ہوا بلکہ سپریم کورٹ کے واضح حکم اور صدر مملکت کے انتخابی عمل کی تاریخ دیئے جانے کے باوجود یہ معاملہ اکتوبر تک کیلئے ٹال دیا گیا جو آئین کے آرٹیکل Not Beyond 90 Days, سے انحراف تھا۔ نتیجتاً عدالت عظمیٰ نے اس کا نوٹس لیا جو نا اہل حکمرانوں کیلئے تازیانہ تھا۔ اس حوالے سے جو کچھ ہوتا رہا، جس طرح حکومتی گٹھ جوڑ سازشی حرکات کرتا رہا اس کی تفصیل میں جائے بغیر اتنا ہی عرض کرتے چلیں کہ 9 رکنی بینچ حکومتی الزامات، غرض مندانہ مؤقف اور خود عدالت عظمیٰ میں معزز اراکین کے اندرونی اختلافات کے باہر آجانے کے باعث 3 اراکین تک محدود ہو گیا۔ چیف جسٹس اور سینئر ججز کے درمیان اختلاف و نزاعت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتی منافقین نے بھی سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل خصوصاً آرٹیکل (3) 184 کے حوالے سے دونوں ایوانوں سے منظور کرا لیا۔
ایک جانب حکومت اپنے ہتھکنڈے آزما رہی تھی تو دوسری جانب اعلیٰ ترین عدلیہ کے درمیان اختلافی پارہ چڑھا ہوا تھا۔ سماعتوں کا انعقاد و التواء 3 اپریل کی سماعت تک پہنچا تھا۔ سماعت کا بائیکاٹ کرنے والی حکومت اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے لاء افسر اور وکلاء سماعت میں شریک بھی ہوئے اور بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔ تاہم سماعت جاری رہی اور چیف جسٹس نے فیصلہ اگلے روز تک کیلئے محفوظ کر لیا۔ افسوس کہ کینہ و کدورت کا حکومتی کھیل پھر بھی جاری رہا۔ مزید دُکھ یہ کہ عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین ارکان قاضی فائز عیسیٰ (مستقبل کے چیف) اور سردار سردار طارق مسعود نے مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو نا اہلی ریفرنس بھیجا تو دوسری جانب رجسٹرار کو تبدیل کرنے کا حکومت کو مشورہ دیا حکومت نے فوری کابینہ منظوری سے اس پر عمل بھی کر دیا۔ ان سارے اقدامات کا اصل مقصد تو حکومتی گٹھ جوڑ کا انتخابات میں شکست سے خوف اور فرار ہے لیکن اس طرح ملک میں سیاسی و آئینی بحران میں مزید شدت اور بگاڑ کا بھی خدشہ ہے۔ اپریل کا مہینہ تھا جب پاکستان کا موجودہ آئین وجود میں ایا تھا۔ اپریل میں ہی اس آئین کا بانی عدالتی قتل کے باعث دنیا سے رخصت ہوگیا اور اب اپریل میں آئین کے پچاس سال پورے ہونے پر ایک جانب گولڈن جوبلی منانے کیساتھ آئین سے کھلواڑ میں آئین کے بانی کا نواسہ بھی شریک ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں14مئی کو الیکشن کرانے کا فیصلہ کردیا ہے۔ جبکہ نااہل حکومت نے حسب معمول سے ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے عدل وانصاف کا قتل کرا دیا ہے۔ اور 3ججوں کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے۔ حالات جس رُخ پر جا رہے ہیں وہ کسی بھی طرح نہ ملک کے مفاد میں ہیں اور نہ ہی عوام کے حق میں، فیصلہ آنے کے باوجود نا اہل حکومت کسی بھی طرح الیکشن کرانے پر راضی نہیں ہوگی۔ کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ پوری قوم عمران خان کیساتھ کھڑی ہے، شنید یہ بھی ہے کہ مقتدرین بھی بوجوہ عمران کے حوالے سے شش و پنج میں مبتلا ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں دو صورتیں سامنے آتی نظر آتی ہیں، پاکستان مزید انتشار و بحران سے دوچار ہو کر خدانخواستہ دشمنوں کیلئے ترنوالہ بن جائے یا جمہوریت کو لپیٹ دیا جائے اور میرے ہم وطنوں کی صدا گونجے۔ ایسے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں ”حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں”۔
٭٭٭