پاک بھارت جنگ سے متحد پاکستان تک

0
131

پاک بھارت جنگ سے متحد پاکستان تک

جنگ ہمیشہ تاریخ ساز ہوتی ہے، تاریخ ہی نہیں،یہ جغرافیے پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، دنیا کی تاریخ میں جو اہم موڑ آئے’ اکثر کسی جنگ ہی کے نتیجے میں آئے، جغرافیہ تو ہے ہی جنگ کی دَین، جنگ کے یہ اثرات اس کی شدت اور طوالت کی نسبت سے کم یا زیادہ ہوتے ہیں لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ نے شدید ترین تقسیم کا شکار پاکستان کو ہر محاذ پر متحد کر دیا ہے ، پاکستانی قوم حکمرانوں اور فوج سے متنفر ہو چکی تھی، سوشل میڈیا پر حکمرانوں اور فوج کیخلاف بیانات سے بھرا پڑا تھا ایسے میں جنگ نے پاکستانی قوم ، حکومت اور پاک افواج کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر دیا ہے ،پاک فوج، حکمرانوں کیخلاف گند اگلنے والے چہرے اب پاک فوج زندہ باد اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جو عالمی جنگیں ہوئیں، انہوں نے تاریخ اور جغرافیے پر بے پناہ اثرات مرتب کیے۔ عالمِ انسایت ایک صدی سے ان اثرات کی گرفت میں ہے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ نے برصغیر کے نقشے کو ایک بار پھر بدل ڈالا۔ افغانستان میں دس سال تک جو جنگ جاری رہی، وہ تاریخ کے دو ادوار کے درمیان حدِ فاصل بن گئی۔ پاکستان اور بھارت 2025ء میں ایک مختصر جنگ سے گزرے۔ اس نے بھی نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا بھر کو متاثر کیا۔ اس اثر انگیزی میں تاریخ اور جغرافیہ کے ساتھ سیاسی افکار بھی شامل ہیں۔مختصر دورانیے کی پاک بھارت جنگ میں یہ عجیب بات سامنے آئی کہ شناخت کے اس بحران کے باوجود پاکستانیت کا تصورِ شناخت کا سب سے بڑا اور معتبر حوالہ بن کر سامنے آیا۔ ایامِ جنگ میں اس نے دوسری شناختوں پر غلبہ پا لیا۔ 1971ء میں اس شناخت کو جو شدید جھٹکا لگا،حالیہ جنگ نے اس کے اثرات کو قابلِ ذکر حد تک کم کر دیا ہے۔ پاکستان کی فتح کا جشن کراچی سے خیبر تک منایا گیا۔ نصف صدی تک پاکستانیت کا یہ تصور کہیں دبا رہا اور موقع ملنے پر باہر آیا یا اس نے اچانک ظہور کیا ہے؟ یہ سوال قومی ریاست کی بحث سے جڑا ہوا ہے۔’پاکستانیت’ کے اس احساس نے ثابت کیا کہ قومی ریاست کا تصور متروک نہیں ہوا۔ عالمگیریت نے ایک حد تک سرمایے کو یہ سہولت فراہم کی کہ اسے جغرافیائی حدود کی قید سے نکال دیا مگر وہ قومی ریاست کے تصور کو ختم نہیں کر سکی۔ آج بھی ‘ملک’ اجتماعی شناخت کا ایک مستند حوالہ ہے۔ وطن سے مختلف ہونے کے باوصف ‘ریاست’ ہمارے لیے وہ سائبان ہے جسے ہم اپنا سمجھتے ہیں اور اس کی موجودگی ہمیں تحفظ کا احساس دلاتی ہے۔ اس جنگ سے معلوم ہوا کہ پاکستانیت کا یہ تصور صرف پنجاب تک محدود نہیں’ جیسے ہمارے بعض لبرل دوستوں کا خیال ہے۔اس کی ایک وجہ اور بھی ہے، پاکستان کی اکثر آبادی کے لیے وطن ہی ریاست بھی ہے۔ اس کے لیے دونوں میں تصادم نہیں۔ یہ فرق ایک پاکستانی کے لیے اْس وقت مسئلہ بنتا ہے جب وہ امریکہ یا کسی دوسری قومی ریاست کی شہریت اختیار کرتا ہے جو لوگ ہجرت کر کے یہاں آئے’ ان کے لیے شناخت ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیا جس کے خوفناک نتائج نکلے اورکراچی’ حیدر آباد جیسے شہر ایک بڑے عذاب میں مبتلا ہو گئے۔پاک بھارت جنگ نے پاکستانی شناخت کو زندہ کر دیا ہے۔ اس سے ان سیاسی قوتوں کو نقصان پہنچے گا جو پختون یا بلوچ عصبیت کو پاکستانی عصبیت کے متبادل کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔ انہوں نے اس تاثر کو نمایاں کیا ہے کہ پاکستانی شناخت پر اصرار اس شناخت سے متصادم ہے جو علاقائی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں ان آوازوں کو پذیرائی بھی ملی ہے۔ حالیہ جنگ نے بتایا ہے کہ یہ مہم پاکستانی شناخت کو کمزور نہیں کر سکی۔ عوام پختون ہوں’ بلوچ ہوں یا پنجابی’ آج بھی اپنی پاکستانی شناخت پر قائم ہیں اور پاکستان کی فتح وشکست کے ساتھ ان کی خوشی اور غم وابستہ ہیں۔ ایک موقف یہ ہے کہ پاکستانیت کی شناخت اْس وقت بروئے کار آتی ہے جب کوئی خارجی چیلنج درپیش ہو۔ اسی پس منظر میں یہ تھیوری بھی سامنے آتی ہے کہ ریاست یا برسرِ اقتدار طبقہ جب داخلی بحرانوں پر قابو نہیں پا سکتا تو کسی خارجی خطرے’ حقیقی یا فرضی’ کا عَلم اٹھا لیتا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ اس سے عارضی فائدہ تو ہو سکتا’ مستقل نہیں پھر حالیہ جنگ میں پاکستانیت کا جو بے ساختہ اظہارہوا،وہ بتاتا ہے کہ یہ جذبہ حقیقی ہے،کسی برسرِ اقتدار طبقے کے مفادات نے اسے وجود نہیں بخشا۔کیا قومی ریاست کا تصور بھارت میں بھی اسی طرح اجتماعی شناخت بن جائے گا؟ کیا یہ بھارت کے شہریوں کو بھی بلاامتیاز مذہب ونسل مجتمع کر دے گا؟ اب تک تو اس کی تائید نہیں ہو سکی، سیاسیات کے طالب علموں کو ان سوالات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ اس جنگ کے حاصلات کیا ہیں؟ ہمارے کس نظریے کو تقویت ملی ہے اور کسے زک پہنچی؟ قومی ریاست کا مستقبل کیا ہے؟ کیا آج بھی کسی نظریاتی ریاست کیلئے پنپنے کا کوئی امکان ہے؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here