پاکستان اور بھارت دنیا کے ان دو ہمسایہ ممالک میں شمار ہوتے ہیں جن کے درمیان سیاسی، عسکری اور نظریاتی کشیدگی کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان چار بڑی جنگیں ہوچکی ہیں، جنہوں نے نہ صرف دونوں ملکوں کو شدید معاشی نقصان پہنچایا بلکہ کروڑوں عوام کو ذہنی و جسمانی اذیتوں میں مبتلا کیا۔ ایسی صورتِ حال میں یہ بات نہایت اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ پاکستان اور بھارت جنگ کی راہ کو ہمیشہ کے لیے ترک کریں اور امن، بات چیت اور ترقی کے راستے پر چلیں۔جنگ کا سب سے بڑا نقصان انسانی جانوں کا ضیاع ہے۔ دونوں ممالک کی فوجیں مضبوط ہیں، اور ان کے پاس جدید اسلحہ موجود ہے، جن میں ایٹمی ہتھیار بھی شامل ہیں۔ اگر خدانخواستہ مستقبل میں کسی جنگ کا آغاز ہوا تو اس کے نتائج صرف دونوں ممالک تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے خطے اور دنیا کو متاثر کریں گے۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں لاکھوں بلکہ کروڑوں جانوں کے ضیاع کا اندیشہ ہے اور ماحولیاتی آلودگی کا خطرہ بھی لاحق ہو گا، جس سے نسلِ انسانی کو شدید نقصان پہنچے گا۔عسکری اخراجات دونوں ممالک کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔ جو پیسہ عوام کی تعلیم، صحت، روزگار، پینے کے صاف پانی اور انفراسٹرکچر پر خرچ ہونا چاہیے، وہ دفاعی بجٹ میں صرف ہو رہا ہے۔ اگر دونوں ممالک جنگ کی بجائے امن کا راستہ اختیار کریں تو یہ وسائل عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان دونوں ہی ترقی پذیر ممالک ہیں، جہاں کروڑوں لوگ غربت، بھوک، بے روزگاری اور ناخواندگی جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان مسائل کا حل جنگ نہیں بلکہ باہمی تعاون اور امن کی فضا میں ممکن ہے۔اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی، تاریخی اور تہذیبی رشتے بھی موجود ہیں۔ دونوں اقوام کا ادب، موسیقی، فلم، زبان اور کھانے پینے کی روایات ایک جیسی ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوں تو عوامی سطح پر رابطے بڑھ سکتے ہیں، سیاحت کو فروغ مل سکتا ہے، تجارت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ثقافتی ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے، جس سے دونوں اقوام قریب آ سکتی ہیں۔دنیا کی جدید اقوام نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مکالمہ اور سفارتی حکمتِ عملی سے ہی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ ماضی کی تلخیوں کو پسِ پشت ڈال کر مستقبل کی بہتری کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔ مسئلہ کشمیر سمیت تمام متنازعہ امور پر مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے اور امن کو اولین ترجیح دی جائے۔عوام کی اکثریت بھی امن کی خواہاں ہے۔ دونوں ملکوں کے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے سکون سے تعلیم حاصل کریں، ان کو بہتر صحت کی سہولیات ملیں اور وہ خوشحال زندگی گزار سکیں۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب دونوں حکومتیں سنجیدگی سے جنگ کو ہمیشہ کے لیے مسترد کریں اور مستقل امن کا راستہ اختیار کریں۔پاکستان اور بھارت دونوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ جنگ صرف تباہی لاتی ہے، جبکہ امن ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہے۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ دانشمندی اور بردباری سے کام لیتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ امن و محبت سے رہیں تاکہ آئندہ نسلوں کو ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل فراہم کیا جا سکے۔
٭٭٭












