نمائشی کلچر !!!

0
93

معلوم ذرائع کی حد تک یہ بیماری سب سے زیادہ ہمارے معاشرے میں ہے کہ اس پر نمائش کا لیپ بہت چڑھا ہوا ہے اور ہماری ساری ذہنی نفسیاتی اور سماجی آسائش اسی نمائش پر منحصر ہے۔ حکمران صرف وہی اقدامات کرتے ہیں جن سے ان کی واہ واہ ہو، ڈھول بجیں، تالیاں پیٹیں اور زندہ باد کے نعرے گونجیں۔ حکومت ہر وہ اہم قومی منصوبہ زیرالتواء رکھتی ہے جو دیرپا اور دور رس تو ہو مگر ان کی حکومت اور سیاست کے لئے فوری نتیجے اور تحسین کا باعث نہ بنتا ہو، الیکشن کا وقت آجائے تو سرد خانے میں پڑے سارے منصوبے اچانک سامنے آجاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خدمت، مقبولیت اور حائت کا تاثر اُبھرے ،اربوں روپے سے معرض وجود میں آنے والے منصوبے سے لیکر گندے نالے پر بننے والے پل کا افتتاح ملک کا حکمران اعلیٰ خود کرنا چاہتا ہے اور اس وقت اس کی آنکھوں کی چمک، چہرے کی تمتماہٹ، گالوں سرخ ڈورے اور لبوں پر بشاشت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب وہ ہاتھ میں قینچی اٹھا کر فیتہ کاٹ کراور اپنے نام کی نصب شدہ تختی کا نقاب اٹھا رہا ہوتا ہے، موٹروے سے لیکر بھائی پھیرو کے بائی پاس کا افتتاح بھی سب سے بڑا مقتدر خود کرتا ہے تاکہ تالیوں کی گونج، لوگوں کی دھمال، ڈھول کی تھاپ، کارکنوں کا بھنگڑا اور ہاروں کا انبار اس کے ذوق نمائش کی تسکین کرسکے۔ حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ کسی عمارت کی پیشانی پر ان کا کہا ہوا نام انہیں امر کرنے کے لئے کافی ہے، ان کے نام کالہراتا بینر ،چار دانگ عالم میں ان کی شہرت کا پھریرا لہرانے کے لئے بہت ہے، اور ان کی تقریر کے دوران اُبھرنے والے نعرے اور گونجنے والی تالیاں گویا تاریخ کے گرداموفون میں ریکارڈ ہوگئی ہیں حالانکہ اس سے بڑھ کر طفلگی اور مضحکہ خیزی اور کوئی نہیں ان باتوں کی حقیقت پانی کی لہروں پر بننے والے نقش سے زیادہ نہیں ، یہ تالیاں مکھن کی ٹکیاں ہوتی ہیں جو وقت کی دھوپ نکلتے ہی پگھل جاتی ہیں یہ نعرے تراشے ہوتے ہیں جو حالات کے پانی میں ذرا سی دیر میں گھل جاتے ہیں اور یہ تختوں پر لکھے نام ریت کی لکیریں ہوتی ہیں جو ہوا کے ایک جھونکے سے مٹ جاتی ہیں۔ اگر یہ نعرے، یہ طغرے، یہ سپاسنامے، یہ قصیدے، یہ نغمے، یہ بھنگڑے، یہ باجے، یا جلسے اور یہ تمغے تاریخ کی بارگاہ میں معتبر اور پائیدار ہوتے تو غلام محمد، سکندر مرزا، ایوب خان اور یحیٰی خان فراموش کے طاقچے اور عبرت کے چوکھٹے میں سجے ہوئے نظر نہ آتے ہیں بلکہ جبین وقت پر جھومر بن کر چمک رہے ہوتے ہیں یہ تو ہے ہمارے ہر دور کے حکمرانوں کا معاملہ، ہم سب کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم خود سے نہ پہچانے جائیں بلکہ لاحقے سابقے ہمیں معتبر بنائیں اور تو اور ہم اپنے مرحوم عزیزوں کی قل خوانی بھی اس شان سے کرتے ہیں کہ لوگوں کو اپنی انگلیاں دانتوں میں دبانے پر مجبور کردیتے ہیں تاکہ کسی طرح تو ہماری دھاک بیٹھے، آنجہانی دیوان سنگھ مفتون نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ”ناقابل فراموش” میں کہیں لکھا ہے کہ میں جب جیل میں تھا تو کسی قیدی کو صبح پھانسی چڑھنا تھی، آخری ملاقات کے لئے جب اس کے ورثاء واقارب آئے تو وہ ان سے کہہ رہا تھا کہ میرے جنازے کے ساتھ بانس باندھے جائیں اور مرے جنازے کا علاقہ بھر میں اعلان کیا جائے حالانکہ یہ سب کچھ ہو بھی جاتا تو اس مردے کو کیا خبر یا اس کا کیا فائدہ؟ کچھ ایسی کیفیات ونفسیات سے ہم سب دوچار ہیں یہ ذہنی نابالغی اور فکری پختگی کی علامت ہے۔ چام کے دام چلا کر ہم سیٹھ بننا چاہتے ہیں۔ یہ شیر بنگال، شیر پنجاب، قائداعظم ثانی، قائد عوام، محافظ جمہوریت، خطیب پاکستان، عالمی مبلغ اسلام، پیرطریقت، نابغہ عصر، مفتی اعظم، یہ سارے القاب وخطابات اسی نفسیات کے آئینہ دار ہیںہم خود ہی اپنے لئے یہ القاب تجویز کرتے ہیں انہیں مشتہر کرتے اور لوگوں کے منہ میں ڈالتے ہیں ورنہ کسی کو ہمارے ساتھ اتنی بڑی دم لگانے کی کیا پڑی ہے؟۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here