دنیا کے طاقت ور ترین ملک کے طاقت ور ترین عہدے پر ٹرمپ کے فائز ہونے کے بعد دنیا میں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی؟ سب اپنے اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں فکر مند اور نئے حالات کے مطابق اپنی اپنی خارجہ پالیسی کے بارے غور و فکر کرنے میں مصروف ہیں۔ اگلے ماہ ٹرمپ ایک بار پھر امریکہ کی صدارت سنبھال لیں گے۔ ساری دنیا کی نظریں اس وقت ٹرمپ اور انکی تشکیل پاتی کابینہ اور انتظامیہ کے عہدیداران کے انتخاب پر لگی ہوئی ہیں ، پاکستان دنیا سے الگ نہیں اور ہمارے دفتر خارجہ میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہو گا۔ ایسے سنجیدہ ماحول میں کچھ یار دوستوں کا یہ خیال ہے کہ کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کی پہلی توجہ پاکستان کی جیلوں میں موجود قیدیوں کی جانب مبذول ہو گی اور وہ کئی قیدیوں کی رہائی کا حکم صادر فرمائیں گے۔ ٹرمپ پاکستان ، ہماری عدلیہ اور ہمارے اداروں پر کس حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں، ہونے چاہئیں اور وہ کس حد تک مداخلت کرنا پسند کریں گے یہ مباحث تو بعد کی ہیں، سوال تو یہ ہے کہ کیا ان کے پاس اس بارے میں سوچنے کے لیے وقت بھی ہو گا؟ عالمی تعلقات اور خارجہ پالیسیاں شخصیات کے بارے میں نہیں بلکہ ممالک اور ان کے مستقبل کے بارے میں سوچ کر تشکیل دی جاتی ہیں۔ اگر ٹرمپ کی بات کی جائے تو سب سے پہلے وہ ایک بزنس مین ہیں اور ایک بزنس مین سب سے پہلے یہی سوچتا ہے کہ اس کی کسی پالیسی سے اسے یا اس کی کمپنی کو کیا فائدہ حاصل ہو گا۔بطور صدر ٹرمپ کی کمپنی انکا ملک یعنی امریکہ ہے۔جو لوگ انکے جملے یہ میرا دوست ہے اور ہم بہت قریب ہیں کے نشے میں چور ہیں ان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جس وقت ٹرمپ نے یہ جملے بولے تھے اس وقت وہ جملے اس ملک (یعنی پاکستان)کے وزیر اعظم سے بول رہا تھا جس ملک کا تعاون اسے افغانستان سے امریکی افواج کی باعزت واپسی کے لیے درکار تھا۔اسی لیے امریکہ کے لیے پاکستان ایک قریبی حلیف اور پاکستانی حکومت کا سربراہ ایک دوست تھا۔آج کے دور میں پاکستان امریکی مفادات میں کہاں فٹ آتا ہے؟ عالمی حالات کا جائزہ لیں تو اس وقت افغانستان امریکہ کا مسئلہ ہے نہ امریکہ کی اس میں کوئی بڑی دلچسپی ہے ۔ دور حاضر میں امریکہ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اور اس کی عالمی سیاست ، خارجہ پالیسی اور تمام تر توجہ کا محور صرف چین ہے ۔ اسکی دلچسپی اور حمایت صرف ان ممالک کے لیے ہوگی جو چین کے خلاف کھل کر امریکہ کا ساتھ دے سکیں۔ ان ہی ممالک کے سربراہان ٹرمپ اور امریکہ کے دوست ہونگے ۔ ان ممالک میں بھارت اور جاپان کے بعد آسٹریلیا اور کینیڈا وغیرہ کا نمبر آتاہے۔ پاکستان کسی صورت چین کی مخالفت نہیں سکتا اس لیے مستقبل قریب میں پاک امریکہ تعلقات دکھاوے کی سلام دعا تک ہی محدود رہنے کی امید کی جانی چاہئے ۔ پاکستان کی تھوڑی بہت اہمیت بس اس بنا پر رہے گی کہ یہ افغانستان، چین، ایران اور بھارت کا ہمسایہ ملک ہے۔ افغانستان میں فوری طور پر امریکہ کی کوئی دلچسپی موجود نہیں۔چین کے سامنے بند باندھنے کے لیے ٹرمپ بطور صدر اور امریکہ بطور ملک بھارت کا انتخاب کر چکے ہیں اور قدرتی بات ہے کہ بھارت کے دشمن اگلی ایک دو دھائیوں تک امریکہ کے دشمن ہونگے جس طرح امریکہ کو اپنی ضرورت کے وقت پاکستان کا آگے بڑھتا ایٹمی پروگرام نظر نہیں آیا تھا اسی طرح اب امریکہ کی ضرورت اسے مجبور کر دے گی کہ اسے نہ کشمیر میں بھارت کے مظالم نظر آئیں اور نہ بھارت کے اندر اقلیتوں سے ہونے والی زیادتیاں کیونکہ تمام دنیا کی خارجہ پالیسیاںملکی مفادات اور مشترکہ دوستوں اور دشمنوں کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہیں۔ اس وقت نہ تو پاکستان امریکہ کے کسی دشمن کا دشمن ہے اور نہ امریکہ کو اپنے کسی مفاد کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔ ایسے میںپاکستان کی مدد کی بجائے امریکہ اپنی تمام توجہ اور محبت اپنے مفادات کی خاطر بھارت میں انوسٹ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھے گا کیونکہ اس وقت پاکستان یا اسکا کوئی موجودہ یا سابق حکمران نہ تو امریکہ کو کوئی عالمی فائدہ دے سکتے ہیں اور نہ ٹرمپ کے لئے امریکہ کی داخلی سیاست میں اب انکی ضرورت ہے۔ ٹرمپ کے حکومتی عہدیداران اور کابینہ کے ابتک اعلان شدہ اور ممکنہ ممبران وہی ہیں جو چین کے خلاف اور چین کے دشمنوں کے دوست ہیں۔ خصوصی طور پر مائک والٹز(قومی سلامتی کے مشیر) کئی برسو ں سے اعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ چین اور امریکہ سرد جنگ لڑ رہے ہیں اور کئی برسوں سے انکا مطالبہ رہا ہے کہ امریکہ اور بھارت مل کر چین کے خلاف باقاعدہ اعلانیہ اتحاد قائم کریں۔ اسی طرح مجوزہ سیکرٹری آف سٹیٹ ، مارکو روبیو، چین کے دشمن ، بھارت کے حامی تو ہیں ہی ساتھ ساتھ انکا یہ خیال ہے کہ پاکستان کشمیر میں بھارت کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہے۔ قومی انٹیلی جنس ڈائریکٹر تلسی گبارد اور سی آئی اے کے چیف جان ریٹ کلف ان کے علاوہ ہیں۔ یہ تمام افراد پاکستان سے صرف یہ مطالبہ کریں گے کہ چین سے زیادہ سے زیادہ دوری اختیار کرے کیونکہ امریکہ کے لیے اب چین روس کی جگہ لے چکا ہے ۔کیا پاکستان کے لیے چین کی مخالفت ممکن ہے؟ اگر ہم دہشت گردی کی بات کریں توظاہر ہے کہ ہم تو اپنے آپ کو دہشت گردی کا شکار کہتے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ امریکہ کی نئی حکومت بھارت اور چین کی عینک لگا کر پاکستان کو دیکھے گی تو ہم اسے دہشت گردی کا شکار نظر آئیں گے یا دہشتگردی کے ساتھی۔ اس منجھدار سے پاکستان کو نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اختلافات چاہے قائم رکھیں لیکن ہمارے لیے مقدم پاکستان اور پاکستان کے مفادات ہونے چاہئیں اور انکے لیے ہماری ساری قوم کو یک آواز ہونا پڑے گا۔ یہ وقت کی آواز بھی ہے اور پاکستان کی ضرورت بھی۔ آنے والے چند برس پاکستان کے لیے مشکلات لے کر آ رہے ہیں ۔معاشی مشکلات تو سب کے سامنے ہیں میں عالمی سیاست اور حالات کی بات کر رہا ہوں۔
٭٭٭