پاکستان نے ساؤتھ افریقہ کو رگڑ کر رکھ دیا!!!

0
86
حیدر علی
حیدر علی

میں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کو تہہ دِل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اُس نے ساؤتھ افریقہ سے ہونے والے ہر مقابلے میں فتح و کامرانی حاصل کی، یہ اور بات ہے کہ مقابلے کے آغاز سے انجام تک پاکستانی ٹیم کے جیتنے کے امکانات صفر تھے یہی وجہ ہے کہ جب میں نے پہلا میچ دیکھنا شروع کیا تو بابر اعظم بیٹنگ کر رہے تھے یا یہ کہیے کہ سست رفتاری سے رن بنانے کا ورلڈ ریکارڈ توڑ رہے تھے، میں اتنا زیادہ بور ہورہا تھا کہ ٹی وی بند کرکے اسٹوریا پارک ٹہلنے چلا گیا ،میرے ادراک میں یہ گماں گردش کرنے لگا تھا کہ اِس میچ کا انجام بھی وہی ہوگا جو سابقہ دو او ڈی آئی میچ کا ہوا ہے، پاکستان کی ٹیم ایک سو رن کے اندر ہی ڈھیر ہوجائیگی اور پاکستان کے دشمن چینلز یہ رٹ لگانا شروع کردینگے کہ پاکستان کی ٹیم 239 رنز کے مقابلے میں صرف 99 رنز بناسکی اور شکست کھا گئی لیکن جب میں اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا تو میرے دوست احمد کا فون آگیا،وہ رو رہا تھا اور روتے ہوئے اُس نے کہا کہ ساؤتھ افریقہ ہار رہا ہے، میں نے جلدی میں جواب دیا کہ اِس سے تمہیں کیا لینا دینا ہے تم تو مصر کے رہنے والے ہو جو نارتھ افریقہ میں ہے، احمد نے جوابا” کہا کہ اُس کے داد ا ساؤتھ افریقہ کے رہنے والے تھے،میں نے غصے میں چیختے ہوئے اُسے کہا کہ اُس سے کیا ہوتا ہے، میرے دادا بھی انڈیا کے رہنے والے تھے ، لیکن میری ہمیشہ یہی خواہش رہتی ہے کہ انڈیا کو شکست ہوجائے، میں نے دوبارہ ٹی وی آن کیا تو میچ کا منظر نامہ ہی بدل چکا تھا، پاکستان کی ٹیم جو پہلے شکست کے دہانے پر پہنچ چکی تھی اور اب وہ جیت کے دہانے کا بوسہ لے رہی ہے، پاکستانی جو میچ دیکھنے گئے تھے ،پہلے اپنا سر نیچے کئے ہوئے سورہے تھے ، اب وہ بڑا بڑا پاکستان کا جھنڈا لہرا رہے تھے البتہ ساؤتھ افریکن کے چہروں پر بڑا بڑا آنسو کا قطرہ ٹپک رہا تھا، اُن کے کھلاڑی بھی رو رہے تھے، میں نے سوچا کہ ایک میچ ہار گئے تو رونا شروع کردیا، اپنی ٹیم تو ہر میچ ہار جاتی ہے پھر بھی ٹی وی پر آ کر قہقہہ مارتی ہے اور ابھی تو میچ کا آخری فیصلہ کہاں ہوا ہے، مجھے پتا ہے کہ کچھ پھڈا ہونا باقی ہے اور جس بات کا خدشہ تھا وہی بالآخر لاحق ہوگیا، پاکستان کے ہیرو بیٹسمین صائم ایوب سنچری اور 109 رنز بناکر کیچ آؤٹ ہوگئے ۔افسوس کی بات تھی لیکن ایک معتبر بیٹسمین محمد رضوان نے اُن کے خلا کو پورا کردیا تاہم ٹیم کو ایک بڑے دھچکے سے دوچار ہونا پڑا، محمد رضوان بھی صفر رن پر پویلین لوٹ گئے، پاکستان کی ٹیم میں جو بھی کپتان بن جاتا ہے اُس کی حالت یہی ہوجاتی ہے،کپتان بننے سے پہلے چالیس ، پچاس یا سنچری بناتا ہے اور کپتان بننے کے بعد بیس، دس یا صفر پر آؤٹ ہوجاتا ہے، سرفراز احمد، بابر اعظم سبھوں کی مثال سامنے ہے۔پاکستان کا دوسرا ساؤتھ افریقہ کے ساتھ ون ڈے انٹرنیشنل میچ یقینا فقیدالمثال تھا، پاکستانی قوم کی ہمیشہ یہی خواہش رہتی ہے کہ اُن کی ٹیم اِسی طرح کا کھیل پیش کرے، ٹھیک ہے میچ کا آغاز اچھا نہ ہوا تھا اور عبداﷲشفیق صفر رن پر ہی پویلین لوٹ گئے اور پاکستانی فینز جو اسٹیڈیم میں بیٹھے ہوے تھے ہاتھ پھیلا کر درود شریف پڑھنا شروع کردیا، اُنہیں دیکھ کر ساؤتھ افریکن بھی دعائیں مانگنی شروع کردیں، مجھے یہ نہیں پتا کہ وہ مسلمان تھے یا کرسچن ، بہرکیف کرکٹ کے ساتھ ساتھ دعاؤں کا مقابلہ بھی شروع ہوگیا۔عبداﷲ شفیق کے خلا کو پاکستانی ٹیم کے ہیرو صائم ایوب نے پورا کیا اور پاکستانیوں کی امیدیں بندھ گئیں،صائم نے کئی شاندار ہٹ لگائیں لیکن بدقسمتی سے وہ چھکے مارنے کی کوشش میں 25 رنز بناکر کیچ آؤٹ ہوگئے، اب پاکستانی فینز کی امیدوں کے آخری سہارا بابر اعظم اور محمد رضوان تھے، جنہوں نے اُن کی ،توقعات کو خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا، دونوں کے درمیان 115 رنز کی پارٹنر شپ بنی اور ٹیم کا ٹوٹل 168 تک پہنچ گیا، ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے پاکستان کی ٹیم نہیں کوئی رنز بنانے کی فیکٹری ہو، ساؤتھ افریقہ کے بولروں کے بالز کی ایسی پٹائی ہورہی تھی جسے دیکھ کر مجھے بھی افسوس ہورہا تھا. مجھے یقین ہے کہ فضا میں اُڑتا ہوا وہ بالز اُنہیں ڈراؤنے خواب میں نظر آرہا ہوگا، درحقیقت کامران غلام کا32 بالز پر 63 رنز بنانا پاکستان کے سینئر کرکٹ کے کھلاڑیوں کیلئے باعث مثال ہے۔ غصے میں انسان پاگل ہوجاتا ہے ، اِس کا ثبوت ساؤتھ افریقہ کے کھلاڑی ہینرک کلاسن نے دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل کے کھیل میں پیش کردیا۔ افسوس صد افسوس کا مقام ہے کہ وہ سنچری بنانے والے تھے ، اُن کا رن 97 ہوچکا تھا، کلاسن نے 44 ویں اوور کی پہلی نسیم شاہ کے گیند پر چھکا مارنے کی کوشش کی تھی لیکن ٹھیک باؤنڈری لائن پر کیچ آؤٹ ہوگئے، اُنکا غصہ ناقابل برداشت ہوگیا اور اُنہوں نے اسٹمپ کو لات ماردی جو کوڈ آف کنڈکٹ کی صریحا”خلاف ورزی تھی، اُنہیں اپنے میچوںکا 15 فیصد جرمانہ ادا کرنا پڑیگا اور ساتھ ہی اُنہیں آئی سی سی نے ون ڈی میرٹ پوائنٹ بھی دے دیا ہے۔خوش قسمتی سے تیسرے میچ میں عبداﷲ شفیق کے علاوہ تمام پاکستانی کھلاڑیوں نے عمدہ کھیل پیش کیا، عبداﷲشفیق سابقہ میچز کی طرح اِس مرتبہ بھی صفر پر پویلین لوٹ گئے تھے، ٹیم کی جان میں دم بھرنے والے صائم ایوب تھے جنہوں نے تیسرے میچ میں بھی سنچری بناکر اپنی روایت کو برقرار رکھا، بابر اعظم اور ٹیم کے کپتان محمد رضوان بھی نصف سنچری بنانے میں کامیاب رہے،ٹیم کی یہ ساری کوششوں کی وجہ کر پاکستان کے فینز اور کھلاڑیوں میں امیدوں کی کرنیں جھلکنے لگیں اور باوجود کہ ساؤتھ افریقہ کے کھلاڑی کلاسن اور رابادا کی شاندار بیٹنگ نے پاکستانی بولروں کو ہارڈ ٹائم دیا لیکن پھر بھی وہ جیت سے ہمکنارہوگئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here