کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر سال ایک کروڑ بیس لاکھ چینی آزادانہ طور پر دنیا بھر کے ممالک کی جانب ایک سیاح کے طور پر پر تعیش سفر اختیار کرتے ہیں اور سنو! اے امریکہ کے رہنے والو! تم یہ جان کر مزید حیران ہو گے کہ پھر یہی ایک کروڑ بیس لاکھ چینی آزادانہ طور پر اسی طرح سفر کرتے ہوئے چین کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اگر چین میں روس کے حکمران سٹالن (Stalin) جیسی کیمونسٹ آمریت ہوتی، غربت و بدحالی ہوتی تو کیا یہ سب کے سب خوش دِلی سے واپس لوٹتے۔ ان میں سے کتنے ہی یورپی ممالک میں پناہ ڈھونڈ رہے ہوتے یا پھر چوری چھپے ان ملکوں میں کہیں غائب ہو جاتے۔ یہ فقرے اس طویل انٹرویو کا حصہ ہیں جو سنگا پور کی مشہور تعلیمی اور سفارتی شخصیت کشور محبوبانی (Kishore Mahbubani) نے سان فرانسسکو میں قائم دی لانگ نائو فائونڈیشن (The Long Now Foundation) کے ایک سیمینار میں دیا تھا۔ایسی تقریب میں تقریر کی بجائے مہمان شخصیت سے ایک اینکر سوالات کرتا ہے اور آخر میں، ہال میں بیٹھے ہوئے افراد کو دعوتِ سوال دی جاتی ہے۔ کشور محبوبانی عالمی سطح کی ایک ایسی شخصیت ہے جس کی تحریر اور تقریر دونوں کو انتہائی دلچسپی سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ وہ سنگا پور میں ایک ایسے ہندو خاندان میں پیدا ہوا جو تقسیم برِصغیر میں سندھ سے ہجرت کر کے وہاں گیا تھا۔ وہ ہاروڈ (Howard) سمیت دنیا بھر کی اعلی یونیورسٹیوں میں مسلسل لیکچر دینے کیلئے بلایا جاتا ہے کیونکہ وہ سنگا پور کی لی کوآن یو (Lee Kuan Yew) یونیورسٹی میں پالیسی انسٹیٹیوٹ کا ڈین رہنے کے علاوہ، ایک طویل سفارتی تجربہ بھی رکھتا ہے۔ اپنے سفارتی کیریئر کے دوران وہ امریکہ میں سنگا پور کا سفیر بھی رہ چکا ہے۔ ایک مصنف کی حیثیت سے اس کی دھوم اس وقت مچی جب 2001 میں اسکی پہلی کتاب “Can Asians Think?” (کیا ایشیائی باشندے سوچ سکتے ہیں؟) شائع ہوئی۔ اس کی تازہ ترین کتاب “Has China Won” (کیا چین جیت چکا ہے)، نے دنیا بھر کے سوچنے، سمجھنے اور لکھنے والے حلقوں میں کھلبلی مچا رکھی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں تبصرہ نگار کہتے ہیں یہ اشتعال انگیز بصیرت “Provocative insight” اور مسحور کن ذہنی خوراک “Fascinating food for Thought” مہیا کرتی ہے۔ کشور محبوبانی بنیادی طور پر سنگا پور کے تخلیقی اور عظیم رہنما لی کوآن یو سے متاثر نظر آتا ہے۔ وہ رہنما جس نے پورے مشرق میں سنگا پور کو اپنی وزارتِ عظمی کے دور میں عالمی معاشی قوت بنا دیا۔ لی کوآن یو، چین کے نظام اور اس قوم کے تحمل، بردباری اور محنت کا بہت بڑا مداح تھا۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ مشرق کی پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ قوموں کو مغرب نے جمہوریت کے فریب زدہ فرسودہ نظام میں الجھا کر ان ممالک کو ترقی کی منازل سے بہت دور کر دیا ہے۔ لی کے بے شمار اقوال ایسے ہیں جو مغرب کے جمہوری نظام کے کھوکھلے پن کو واضح کرتے ہیں۔ اس نے کہا تھا، تم روانڈا، بنگلہ دیش اور کمبوڈیا کو دیکھو، انہیں جمہوریت تو مل گئی لیکن مہذب، پرسکون اور پرعیش زندگی میسر نہ ہو سکی۔ عام انسانوں کے نزدیک معاشی خوشحالی ہی سب سے اہم ہوتی ہے۔ آپ کسی بھی قوم میں ایک سروے کروا کر دیکھ لو کہ لوگ کیا چاہتے ہیں، یقینا لوگ اخبار میں ایڈیٹوریل لکھنے کی آزادی کے مقابلے میں گھر، نوکری، تعلیم اور صحت کی سہولیات کو ترجیح دیں گے۔ اس نے ایک اور جگہ کہا تھا کہ ہم امریکی صحافیوں کو سنگا پور آنے کی اجازت تو دے سکتے ہیں تاکہ وہ امریکیوں کو ہمارے بارے میں بتائیں، لیکن ہم انہیں اپنے ملک میں وہ کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو انہوں نے اپنے عوام کو خراب کرنے میں ادا کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ جو لوگ ہمیں یہ مشورہ دیتے ہیں کہ فلاں معاملے میں عوام سے پوچھو تو یہ ایک احمقانہ اور فضول بات ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عوام اپنے بارے میں بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں، کیا آپ ایمانداری سے سمجھتے ہیں کہ وہ شخص جو پرائمری کا امتحان نہ پاس کر سکتا ہو اسے اپنے کسی سیاسی فیصلے کرتے وقت ان کے خوفناک نتائج کا تھوڑا سا بھی ادراک یا اندازہ ہوتا ہو گا۔ سنگا پور تو صرف پچپن لاکھ کی آبادی اور سات سو اٹھائیس مربع کلو میٹر رقبے والا ملک ہے، جس نے ترقی کی اور خوب کی اور یہ ترقی جمہوری نظام کی نوازشات کے بغیر کی۔ لیکن اتنے بڑے ملک چین کی جمہوریت کے بغیر ترقی نے تو دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ چین جس کی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ ہے اور جس کا رقبہ 95 لاکھ 96 ہزار 961 مربع کلو میٹر ہے، اپنی ترقی، خوشحالی اور عسکری قوت کے اعتبار سے وہ مقام حاصل کر چکا ہے کہ اس وقت امریکہ اور مغرب اس کی ترقی کو روکنے کیلئے پوری طاقت استعمال کر رہے ہیں۔ چین کو روکنا “Containment of China” اس وقت مغربی دنیا کا خواب ہے۔ کشور محبوبانی اپنی کتاب کیا چین جیت چکا ہے۔ میں لکھتا ہے کہ چین کی حکومت اس وقت دنیا کی بہترین حکومت ہے جہاں میرٹ کا راج ہے۔ وہ اسے “Meritocratic” حکومت کہتا ہے اور یہ چین کی کئی ہزار سالہ تاریخ میں سب سے کامیاب حکومت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا چین کو اپنی جمہوری طرزِ حکومت کی عینک سے دیکھتی ہے اور انہوں نے جو افسانے سرد جنگ کے زمانے میں کیمونسٹ روس اور دیگر ممالک کے بارے میں پڑھے تھے وہ چین کو اسی کسوٹی پر رکھ کر پرکھتے ہیں۔ امریکہ صرف 240 سال پرانا ملک ہے جبکہ چین 2400 سال پرانا ملک اور تہذیب ہے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ صرف دو سو چالیس سالہ عہدِ طفولیت والا امریکہ اور اسکی عوام ڈھائی ہزار سال پرانی قوم کو اپنے نظریات کی بنیاد پر پرکھتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین کے گزشتہ تیس سال اس کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ میں بہترین سال رہے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود امریکی کہتے ہیں تم صحیح ترقی نہیں کر رہے ہو۔ چین کے نظام نے اپنے اندر سے ایک ایسی قیادت کو جنم دیدیا ہے جو اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہے اور سیاسی گروہوں میں تقسیم نہیں ہے۔ جمہوریت کی پارٹی بازی والی لعنت کا شکار نہیں ہے۔ ان کے ہاں ایک ہی پارٹی ہے لیکن ان کے لیڈروں میں لاتعداد مختلف نظریات رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ مگر ایک پارٹی ہونے کی وجہ سے ان تمام لیڈروں کی نظریات آخر کار ایک اجتماعی نکتے تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس نے چین اور امریکہ کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ تیس سالوں میں ایک عام امریکی کا معیارِ زندگی بری طرح گرا ہے جبکہ چین نے ان تیس سالوں میں غربت کا خاتمہ کیا، صحت اور تعلیم کی سہولیات ہر ایک تک پہنچائیں اور خوشحالی کا پیمانہ یہ ہے کہ وہاں سے بیرون ملک سفر کرنیوالوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ کشور محبوبانی نے سیاحت کیلئے نکلنے والے چینیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو اس لئے مثال بنا کر پیش کیا ہے کیونکہ دنیا کے معاشی ماہرین اسے خوشحالی کا بہترین پیمانہ کہتے ہیں۔ جس ملک کے باہر سفر کرنے والے سیاح زیادہ ہوں اور وہ دنیا دیکھ کر واپس بھی آ جائیں تو یہ ملک خوشحال، پر امن اور پر سکون ہے۔ لیکن ملک سے باہر سفر کرنے والے اگر دوسرے ملکوں میں جا کر نوکریاں کریں اور پناہ ڈھونڈیں تو ایسا ملک غریب، بد امن اور بدحال ہے۔ بنگلہ دیش میں جمہوریت ہے اور معاشی جائزوں کے مطابق وہ بہت خوشحال بھی ہے لیکن اس کے ایک کروڑ لوگ بھارت میں معمولی نوکری کیلئے ہجرت کر چکے ہیں، جبکہ چین میں جمہوریت نہیں ہے مگر اس کے ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ ہر سال دنیا دیکھنے نکلتے ہیں اور اپنے خوشحال وطن واپس لوٹ آتے ہیں۔
٭٭٭