آجکل وٹس ایپ گروپس کے بعض ایڈمنز (سارے نہیں )جہنم خریدنے کا بڑی تیزی سے دھندہ کر رہے ہیں ، کبھی لگتا ہے جہنم کی لوٹ سیل میں ہم بھی رگڑ میں نہ آجائیں،انکے سامنے کسی کی عزت محفوظ نہیں ہوتی ہے۔ یہ شرفا کو دھمکیاں دیتے ہیں ۔ ایجنسیوں میں شکایت بازی کرتے ہیں ۔انہوں نے اپنے ٹائوٹ رکھے ہوئے ہیں۔ انکے نزدیک نہ مذہب کی کوئی قدر ہوتی ہے نہ برادری کی۔ نہ چھوٹے بڑے کا حیا کرتے ہیں نہ رواداری کے قائل ہوتے ہیں ۔ یہ اپنے آپکو یا تو فرعون سمجھتے ہیں یا نمرود یا چنگیز یا کالا باغ یا ڈھرنالیا یا بالی یا سعادت بلوچ ۔ یہ اپنی عاقبت سے بھی غافل ہوتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے ہیں کہ انکے ان گناہان بے لذت کی سزا انکی اولادوں کو مل سکتی ہے۔ انکے اہل خانہ کو مل سکتی ہے۔ انکی عمر گھٹ سکتی ہے ، انہیں فالج ہو سکتا ہے، کینسر ہو سکتا ہے ، کرونا سے مر سکتے ہیں، دل کا جان لیوا دورہ پڑ سکتا ہے ، فقر و فاقہ کے عذاب میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔ ان کو نہ محفل یاد ہوتی ہے نہ مجلس، نہ قرآن نہ حدیث۔ نہ خوشی نہ غمی۔ نہ امر نہ نہی نہ مبارکباد نہ تعزیت مثلا آج یوم ولادت حضرت علی اکبر تھا مجال ہے ایک تہنیت کا پیغام آیا ہو۔ بد زبان ایسے کہ بنی اُمیہ شرما جائیں ۔ لعنت کرنے والے ایسے کہ بنی عباس منہ چھپائیں۔ طعن و تشنیع ایسی کریں کہ بنی اسرائیل کی قبروں میں آگ لگ جائے ۔ انکی نشانیاں یہ ہیں کہ نہ یہ کسی ایک جمعہ میں نظر آئینگے نہ کسی جماعت میں،نہ یہ زکواة دینگے نہ خمس۔ نہ صدقہ نہ خیرات نہ نمازی نہ روزہ دار ، نہ زاہد نہ شب زندہ دار ۔ نہ نادم نہ تائب ۔ بد اخلاق ایسے کہ گھن آئے۔ ان کودانت برش کرنے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ بہت ساروں کو تو نہانے کی فرصت نہیں ہوتی ہے ۔ میں نے بلامبالغہ انکے تن پر ایک ایک شرٹ برسوں دیکھی ہے ۔ میتیں اُٹھ رہی ہوں تو اول تو آتے نہیں اور مرحومین کے خدمت گزاروں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں ۔ اگر غلطی سے آ بھی جائیں تو جنازے یا فیونرل ہوم یا قبرستانوں میں غیبت کرینگے۔ زندہ و مردہ سب کی ۔ جھوٹ بولینگے۔ بازاری زبان استعمال کرینگے ایک دوسرے پر آوازیں کسیںگے، تہمتیں لگائیں گے، علما کی مخالفت ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ شرفا کی پگڑیاں اُچھالنا انکا فرض اولین ہوتا ہے ، کوئی کسی ایجنسی کا ٹائوٹ ہوتا ہے تو کوئی کسی ملک کے پیرول پر ہوتا ہے۔ انکو کسی جوان کی موت پر بھی رونا نہیں آتا۔انکو آپ کبھی ذکر حسین میں بھی روتا نہ دیکھیں گے۔ انہیں آپ کسی مذہبی سروس میں کبھی نہیں دیکھیں گے اور آئیں گے تو بھی دادا گیری کیلئے۔ ان کا آج کل کام سنائپر بن کر کمیونٹی کو ڈیمیج کرنا ہوتا ہے۔ ہیکر یہ ہیں تو چور یہ ، طلاقیں یہ کروائینگے۔ گھر یہ تڑوائینگے ۔ قرآن یہ نہ پڑھیں گے۔ نماز کے ٹائم پر انکی پیغام سرانیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ یہ ایسے عادی مجرم ہیں کہ قیام نماز میں فون اُٹھا رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ کہیں کہ یہ ایڈمن صاحب تھوڑا سا قرآن پڑھیں تو وہ لڑنے مرنے پر آجاتے ہیں۔ مسجدوں اور مراکز کے باہر انکے گینگسٹر کھڑے ہونگے۔ بڑے بڑے پھنے خان کو پوچھیں تو وہ بتائیگا رمضان میں نہ زکواة دیتا ہے نہ محرم میں خمس۔ نہ صدقہ دیتا ہے نہ خیرات نہ احترام والدین نہ صلہ رحمی یہ جذبہ خیر خواہی سے عاری ہوتے ہیں۔ ان میں مدارات نا پید ہوتی ہے ۔ آج کل دونمبر کے وہ مولوی نما لگتے ہیں اور مین اسٹریم سے ہٹ کر لوگوں کو فرقہ واریت کا پجاری بناتے ہیں ۔ ہر ایک کی انہیں ڈگری کی کاپی چاہیے، اپنا پرائمری کا سرٹیفکیٹ دکھانے کو تیار نہیں۔ دوسروں کے اجتہاد پہ جاہلانہ تبصرہ اور خود کلمہ شہادت نہیں جانتے ۔ دیگران را نصیحت اورخود میاں فصیحت بنے ہیں۔
خود نو معاشرے کے دھتکارے ہوئے ہوتے ہیں ، ہمیں اپنی حرکتوں سے بد نام کرکے بلیک میل کرنا چاہتے ہیں۔ اب تو انہوں نے غیر مذہب کے لوگوں کو گروپس میں ڈالنا شروع کیا ہے اور خود غیروں کے گروپس میں ہماری قومی پوسٹیں شیئر کرکے ہمارے عقیدہ اور عمل کو بدنام کررہے ہیں اگر تو یہ نادانی میں کررہے ہیں تو اللہ معاف کرے اور اگر جان بوجھ کر کر ر ہے ہیں تو اللہ غرق کرے۔ آجکل انکے بعض شرارتیوں نے ڈبل گیم کرنی شروع کر دی ہے ادھر سے بھی لکھتے ہیں اُدھر سے بھی ۔ اللہ رحم کرے۔
٭٭٭