کچھ تو شرم کرو!!!

0
97
شبیر گُل

وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک والے دہشت گرد ہیں ۔ انہیں انڈیا سے امداد ملتی ہے۔ بے شرمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ الزام لگاتے وقت کچھ تو خیال کرنا چاہئے ۔ علما بھی انڈین ایجنٹ ہیں تو کون بچا ہے جو انڈین ایجنٹ نہیں ہے ۔ خدا کے لئے اپنی کیسٹ ہی بدل لو۔ جب 1953 میں جماعت اسلامی کی قیادت میں تحریک ختم نبوت چلی تھی تو ہزاروں عاشقانِ رسول گرفتار اور شہید ہوئے تھے اور اس وقت بلا تفریق فرقہ تمام مکاتب فکر کے علما اور مسلمان اس تحریک کی مکمل حمایت کر رہے تھے۔اس وقت غلام محمدگورنر جنرل ( یعنی موجودہ صدر )کے عہدے پر فائز تھا ، جس نے تاجدارِ ختم نبوت کے نعرے مارنے والے نہتے مسلمانوں کو شہید کروایا ۔تعجب کی بات ہے کہ غلام محمد نے یہ سب کچھ کروانے کے باوجود سعودی حکومت سے درخواست کی کہ مجھے مدینہ پاک میں رہائش دی جائے ۔ درخواست قبول کر لی گئی اور حکومت نے اسے باب جبریل سے قریبی علاقے میں رہائش دے دی جو پاکستان ہائوس کے نام سے معروف ہوئی ۔پھر اس نے یہ وصیت بھی کی کہ مجھے وہیں دفنایا جائے ۔
لیکن خدا کی قدرت کہ جب یہ مرا تو اس کی لاش کو امانتا ًعیسائیوں کے قبرستان میں رکھا گیا ، جب کچھ عرصے بعد حسبِ وصیت لاش کو قبر سے نکال کر سعودی عرب روانہ کرنے کے لیے ایک ڈاکٹر ، فوج کے کیپٹن ، پولیس اہلکار ، دو گورکن اور غلام محمد کے قریبی رشتے دار قبر ستان پہنچے توگورکن نے جیسے ہی قبر کھود کر تختے ہٹائے تو تابوت کے گرد ایک سانپ چکر لگاتا دکھائی دیا، گورکن نے لاٹھی سے اسے مارنے کی کوشش کی مگر وہ نہ مرا ۔پولیس کے سب انسپکٹر نے پستول سے چھ گولیاں داغیں مگر سانپ کو کوئی گولی نہ لگی پھر ڈاکٹر کی ہدایت پر زہریلا سپرے کر کے قبر عارضی طور پر بند کر دی گئی جب دو گھنٹے بعد دوبارہ کھولی تو سانپ اسی طرح چکر لگا رہاتھا۔آخر باہمی صلاح مشورے سے قبر کو بند کر دیا گیا اور اگلے دن اخبار میں خبر شائع ہوئی کہ سابق گورنر جنرل غلام محمد کی لاش سعودی عرب نہیں لے جائی جاسکی اور وہ اب کراچی ہی میں دفن رہے گی ۔ وہ لاش آج بھی کراچی کے گورا ( عیسائیوں کے ) قبرستان میں دفن ہے ۔ عرفان محمود برق صاحب کے مطابق اس قبر پر کتے آکر پیشاب کرتے ہیں اور وہاں کا عیسائی گورکن کہتا ہے کہ اس قبر سے چیخوں کی بھی آواز سنائی دیتی ہے ۔ ہم اللہ پاک سے عافیت کا سوال کرتے ہیں ، پروردگار ہمیں ذلت والی موت سے بچائے ۔ ہر ظالم کا برا حشر نہیں دکھایا جاتا ، عبرت کے لیے کسی کسی کا دکھا دیا جاتا ہے ۔ اللہ پاک ہمارے حکمرانوں کو بھی اس سابقہ صدر سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق دے ! فواد چوہدری کو پٹہ ڈالنا چاہئے جن کی بد بانی کی وجہ سے اکثر معاملات خراب ہوئے۔فواد چوہدری مشرف دور ، پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر اطلاعات رہے۔ اس وقت بھی اپنی بدزبانی کیوجہ سے مشہور ہیں۔ انکو یاد رکھنا چاہئے ، کہ عاشقان رسول ، اور شمع رسالت کے پروانے اپنی، جان ، مال اور اولاد کی پرو کئے بغیر رسول اللہ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے رہیں گے، فواد چوہدری، شیخ رشید جیسے جھوٹے مسخرے ڈرامے کرتے رہیں گے، وقت نے ثابت کیا ہے کہ جب یہ لوگ اقتدار سے باہر ہوں تو عاشق رسول کے متوالے نظر آتے ہیں اور مظاہروں کو لیڈ کرتے ہیں لیکن جب اقتدار سے باہر آئیں تو انہی مظاہروں کو کچل دیتے ہیں۔
آج سے تین سال پہلے جب تحریک لبیک والے عاشق رسول ہوا کرتے تھے۔شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف والے ان کے دھرنوں میں شریک ہوا کرتے تھے ۔ آج یہ کیسے دہشت گرد ہوگئے۔پھر تو ان دھرنوں شریک ہونے والے انصافی لیڈرز بھی دہشت گرد ہوئے۔ حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں ۔ فسطائی حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں۔ ہم پر تشدد مظاہروں کے خلاف ہیں ۔ سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف ہیں لیکن ختم نبوت پر کوئی لچک نہیں دکھائی جاسکتی ۔
جن جن لوگ نے اقتدار اور وزارت کی خاطر رسول اکرم سے دھوکہ کیا ، وہ اپنا انجام یاد رکھیں۔ ہم پاکستان کے قانون کو بالادست مانتے ہیں ۔ آئین کی پاسداری کرتے ہیں لیکن کیا جب آپ لوگ ملک جام کردیں۔ 126دن کے دھرنے دیں تو وہ جائز ۔ تحریک لبیک والے دیں تو انڈین ایجنٹ اور دہشت گرد۔ یہ فسطائیت قبول نہیں کی جاسکتی۔ آئین پاکستان میں حرمت رسول اللہ اور گستاخان رسول کی جو شقیں ہیں ،ان پر ہی عمل کرلیں تو دھرنا ہوا، گولیاں چلیں ،لاٹھی چارج ہوا، سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے اور بیسیوں ہلاک ہوئے ۔ چار پولیس والے ہلاک ہوئے۔ پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے ایک درجن سے زیادہ عاشقان مصطفی ہلاک ہوئے،املاک کو نقصان پہنچا۔ میرا سوال ہے کہ اگر مذاکرات ہی ہر مسئلے کا حل ہے تو قتل وغارت گیری کرنے کی کیا ضرورت تھی۔یہ مذاکرات انسانی جانوں کی ضیاع کے بعد ہی کیوں ، کیا انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں۔؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here