چپ رہوں تو وقار جاتا ہے!!!

0
124

تاریخِ عالم میں کوفہ صرف کسی ایک شہر کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو تقریبا ہر دور کے انسانوں میں کسی نہ کسی حد تک پایا جاتا رہا ہے۔ فلسطین پر صیہونی قبضہ کو پون صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن غزہ پر ہونے والے مظالم نے اس ناجائز قبضے کو جنگی جرائم کے نقطہ عروج تک پہنچا دیا ہے۔ ان جرائم پر پوری دنیا کے اجتماعی ضمیر کی خاموشی نے واقعہ کربلا سے قبل کوفیوں کے اس رویہ کی ناخوشگوار یادوں کو تازہ کر دیا ہے، جو کسی طرح بھی انسانیت کیلئے قابلِ اطمینان نہیں ہو سکتا تھا۔ حسیب الحسن نے کیا خوب کہا ہے۔اس کے وعدوں پہ بھی کر لیں گے بھروسہ وہ اگرشہر کوفہ کے مضافات سے باہر نکلے ،گزشتہ نومبر میں، امریکی مسلمانوں نے یہ جاننے کے باوجود بھی کہ صدر ٹرمپ کی حکومت امیگرنٹس کیلئے خاصی سختیاں لائے گی، غزہ کی جنگ بندی کی موہوم امیدوں پر بھروسہ کیا اور ٹرمپ کی پارٹی کو اپنے ووٹوں سے نوازا۔ شومئی قسمت کہ انہوں نے اندرون ملک سختیاں بھی جھیلنا شروع کر دیں لیکن غزہ کے مظلوم و مجبور باسیوں پر بمباری بھی نہ تھم سکی۔ فلسطینی بچوں کی درد بھری سسکیاں ہر چہار سو، سنی جاسکتی ہیں۔ والدین جب ان کے ننھے منے لاشے، اپنی گودوں میں لے کر دفناتے نظر آتے ہیں تو سخت سے سخت دل انسان بھی پسیج جاتا ہے لیکن اپنے ناجائز مفادات کے حصول کیلئے آج کے یزید بھی ویسے ہی ظالم و جابر واقع ہوئے ہیں جیسے پہلے والے تھے۔ بقول اقبال !
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
اہلِ غزہ تو عزیمت کا وہ راستہ اپنائے ہوئے ہیں جو آجکل کے حالات میں صراطِ مستقیم کے سب سے زیادہ قریب نظر آتا ہے لیکن عالمِ اسلام کی ایک بڑی بھاری اکثریت، اس شعور سے عاری دکھائی دیتی ہے۔ سنتِ نبوی ۖ تو یہ ہے کہ وہ مکہ میں کسی بڑے اختیار کے نہ ہونے کے باوجود، مظلوموں کی داد رسی کرنے کیلئے بڑے سے بڑے سردار کو بھی للکار دیا کرتے تھے اور انہیں ان کا جائز حق دلانا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ دوسری جانب آج کل کے ارباب حل و عقد ہیں جن پر ایسی واہییات خاموشی طاری ہے کہ انہیں غزہ کے بلکتے بچے اور غمزدہ خواتین بالکل نظر ہی نہیں آتے۔ امریکی ساخت کے بم اور میزائیلوں کی بارش روزانہ ہوتی ہے۔ جنگ بندی کا وعدہ کرنے والے حکمران اپنے دیگر امورِ مملکت نبھانے میں مشغول نظر آتے ہیں جبکہ عوام الناس نے بھی خاموشی سادھی ہوئی ہے۔
مولانا حالی نے بہت پہلے کہا تھاکہ
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
آج عمران پرتاپ گڑھی کے اس دعائیہ کلام نے غزہ کی صورتحال کچھ اس طرح خاصی واضح کی ہے۔
کاش کوئی یہ سمجھ پائے یہ جھگڑا کیا ہے
کاش دنیا یہ سمجھ پاتی کہ یہ جھگڑا کیا ہے
آپکے گھر پہ کسی غیر کا قبضہ کیا ہے
تو جو چاہے تو ہر اک بات کو بہتر کر دے
اک نظر ڈال کہ حالات کو بہتر کر دے
اب کہیں بھی نہیں شنوائی ہے میرے مولا
ساری دنیا ہی تماشائی ہے میرے مولا
جو تیرے نام پہ لڑتے ہیں اگر ہارے تو
اس میں ہم سب کی بھی رسوائی ہے میرے مولا
انکی اجڑی ہوئی بستی کی صدائیں سن لے
اے خدا قبلِ اول کی دعائیں سن لے
تو جو چاہے تو برا وقت بھی ٹل جائے گا
رات کی کوکھ سے سورج بھی نکل آئے گا
دودھ مونہے بچوں کے بھی خواب ہوا کرتے ہیں
جنگ کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں
ہم نہیں کہتے ہمیں کوئی پیمبر دے دے
جو فقط تیرے ہی آگے جھکے وہ سر دے دے
لشکر ِ فیل جہالت پہ اتر آیا ہے
اے خدا پھر سے ابابیلوں کو کنکر دے دے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here