مغرب کا خیال تھا کہ روس کی جانب سے یوکرین میں فوجی آپریشن کے بعد روس پر پابندیاںلگا کر روس کی معیشت کو تباہ کردیا جائے لیکن یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا، روس کی مثبت پالیسیوں اور بروقت منصوبہ بندیوں نے روس کی معیشت کو پہلے سے مضبوط کردیا ہے۔ماسکو طویل عرصے سے پابندیوں کے دبائو کا عادی رہا ہے، یورپی یونین اور امریکہ نے 2014 سے روس پر پابندیاں لگانا شروع کی ہیں۔ تاہم، یہ دبائو گزشتہ سال ایک نئی سطح پر پہنچ گیا جب پوتن نے یوکرین میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ روس کو ایران سے بھی آگے دنیا کا سب سے زیادہ پابندیوں والا ملک بنا دیا گیاہے۔ ماسکو کو گزشتہ سال فروری سے اب تک صرف برسلز سے دس پابندیوں کے پپیکیجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔پھر بھی یہ اقدامات بھی روسی معیشت کو مفلوج کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ مغربی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ روسی حکومت کی جانب سے پابندیوں کامقابلہ کرنے کیلئے کئے گئے فیصلوں نے مشکل ماحول کے باوجود ملک کی مالیاتی بنیاد کو برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔یوکرین میں فوجی کارروائی شروع کرنے کے بعد روس نے خود کو نمایاں طور پر مزید دبائو میں پایا۔ اس کی توقع کی جانی چاہیے تھی، کیونکہ مغربی ممالک نے خبردار کیا تھا کہ اگر ماسکو نے اپنے پڑوسی کے خلاف فوجی مداخلت کا فیصلہ کیا تو اسے سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور روس کے یوکرین میں فوجی آپریشن شروع کرتے ہی 24گھنٹے کے اندر پہلی پابندیاں لگا دی گئی اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا اور اب تک جاری ہے۔روسی مالیاتی نظام کے تحفظ کے لیے بہت سے اقدامات دراصل فوجی آپریشن کے آغازسے بہت پہلے کیے گئے تھے۔ روس کی بین الاقوامی امور کی کونسل میں پروگراموں کے ڈائریکٹر ایوان تیموفیف نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب روس میں ویزا اور ماسٹر کارڈز نے کام بند کر دیا تھا اور بینکوں کی طرف سے لین دین پر پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں تو اسے زبردست دھچکا لگ سکتا تھا۔ لیکن جس چیز نے روسی معیشت کو طوفان کا سامنا کرنے کی طاقبت دی ، وہ 2015 میں روس کے مرکزی بینک اور وزارت خزانہ کے ذریعے ”میر” آزاد قومی ادائیگی کے نظام کی تشکیل تھی۔یہی وجہ ہے کہ خصوصی فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد غیر ملکی ادائیگی کے نظام کی روانگی نے روسی مالیاتی شعبے کو کمزور نہیں کیا۔ یہ سچ ہے کہ ایک جھٹکا تھا، لیکن یہ بہت قلیل مدتی تھا اور جلد ہی اس پر قابو پا لیا گیا۔اس کے علاوہ ایک اہم عنصر جس نے روسی معیشت میں مدد کی وہ مرکزی بینک کی طرف سے روبل کو سہارا دینے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات تھے۔ غیر ملکی کرنسی اور اسٹاک مارکیٹوں کی جانب سے مغربی پابندیوں کے جواب میں نمایاں اتار چڑھا ئوکے بعد، روسی کرنسی مارچ 2022 میں ڈالر کے مقابلے میںتقریبا120.5روبل کی ریکارڈ کم ترین سطح پرپہنچ گئی تھی۔28 فروری کو، مرکزی بینک نے مطالبہ کیا کہ روسی برآمد کنندگان اپنی غیر ملکی کرنسی کا 80% فروخت کریں، اور اسے روبل میں تبدیل کریں اور اس طرح روبل پر دبائو کو کم کیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تجربہ پہلے بھی کیا جا چکا تھا۔1991میںیہ غیر ملکی کرنسی کے اخراج کو روکنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا اور تقریبا ایک دہائی تک نافذ رہا۔پوتن نے روسی کرنسی کی بیرون ملک منتقلی روکنے کیلئے 2 مارچ کو10ہزارڈالر فی شخص، یا اس کے مساوی غیر ملکی کرنسی کی حد عائد کرتے ہوئے ملک سے باہر لے جانے والی نقدی کی مقدار کو بھی محدود کردیا۔تیل اور قدرتی گیس کی اونچی قیمتوں کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال گرتی ہوئی درآمدات کے نتیجے میں روسی مقامی مارکیٹ میں غیر ملکی کرنسی کا غیر معمولی سیلاب آیا، جس نے روبل کو سہارا دیا ۔جس کے نتیجے میں، ڈالر جون تک 50.1روبل کی سات سال کی کم ترین سطح پرپہنچ گیا۔ تیل کی قیمتوں اور قدرتی گیس کی برآمدات میں کمی کے بعد سے زرمبادلہ کی متعدد پابندیاں ہٹا دی گئیں جس کی وجہ سے دسمبر میں روبل کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔ تبادلے کی شرح سال کے آخر تک ڈالر کے مقابلے میں73.8روبل تک پہنچ گئی تھی، اور اب یہ 72سے 77روبل کے درمیان رہ گئی ہے۔
جنوری میں روسی وزارت خزانہ نے مالیاتی اصول کو نافذ کرنے اور تیل اور گیس کے بجٹ کی گرتی ہوئی آمدنی کی تلافی کے لیے زرمبادلہ کی مارکیٹ میں قدم رکھا۔ وزارت کے پاس اس کے خزانے میں فنڈز موجود ہیں جورواں سال روبل کو مستحکم رکھنے کیلئے کافی ہے۔
28 فروری 2022 کو، روس کے مرکزی بینک نے بڑھتے ہوئے فرسودگی اور افراط زر کے خطرات سے فائدہ اٹھانے کے لیے کلیدی شرح سود کو 9.5 سے بڑھا کر 20% کر دیا۔ اس فیصلے کے بعد بینکوں نے ڈپازٹس اور قرضوں پر سود کی شرح بڑھانا شروع کردی۔ پوتن نے بینکوں کو ہدایت کی کہ وہ مرکزی بینک کے فیصلے سے قبل دستخط کیے گئے تمام معاہدوں میں شرح سود کو محفوظ رکھیں۔تاہم، بڑھتی ہوئی شرح سود نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری کمپنیوںکو متاثر نہیں کیا، کیونکہ مارچ میں ان کمپنیوں کو خصوصی قرضے دئے گئے جو سرکاری شرح پر منحصر نہیں تھے۔
اگست میں، وزیر اعظم میخائل مشوستین نے کاروبار کی ترقی کے لیے 3سے4.5فیصد سبسڈی کا اعلان کیا اورقرض کی مدت دس سال تک کردی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ مارچ 2022 سے، ٹیکس دفاتر نے ان کمپنیوں کے خلاف دیوالیہ پن کا مقدمہ دائر نہیں کیا ہے جن پر ٹیکس اور فیس واجب الادا ہے۔روسی حکومت نے چھوٹی کاروباری کمپنیوں پر کئی شرائط میں نرمی بھی کردی جس سے روسیوں کو بیروزگاری سے بچنے کا موقع ملا۔ روسی حکومت کی جانب سے صرف ایک پروگرام کے تحت 4لاکھ 40ہزار ملازمتوںکو بچایا گیا۔جس کے نتیجے میں 2022کی تیسری سہ ماہی میں غربت میں رہنے والے روسیوں کی تعداد کم ہوکر15.3ملین رہ گئی۔
بہت سے ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ پابندیوں کے دبا ئوکے درمیان ”متوازی درآمدات”کے نظام نے روسی معیشت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ روسی حکومت نے متعلقہ ٹریڈ مارک مالکان کی رضامندی کے بغیر ملک میں غیر ملکی ساختہ مصنوعات کی مخصوص اقسام کی درآمد کی اجازت دی۔روسی قانون کے تحت سرکاری ڈسٹری بیوشن چینلز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان مصنوعات کو درآمد کرنا اب مزید قابل سزا نہیں رہا۔روسی سرحد پر چیک پوائنٹس پر اضافی انسپکشن پوسٹس قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ 300 بارڈر کراسنگز کی اوور ہال کو تیز کرنے اور ان کی صلاحیت کو بڑھانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
ہائی ٹیک کمپنیوں کو اگلے تین سالوں تک انکم ٹیکس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور حکومتی ریگولیٹرز کے معائنے پر پابندی ہے۔ آئی ٹی کاروباری کمپنیاں اب صرف 3فیصدسالانہ کے حساب سے قرض لے سکتی ہیں، اس اقدام کا مقصد کم از کم 75 ڈیجیٹل تبدیلی کے منصوبوں کے نفاذ کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرنا ہے۔روسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بین الاقوامی پابندیوں نے روسی معیشت پر منفی اثر ڈالا ہے، لیکن ملک دبائو سے نمٹنے میں کامیاب رہا ہے۔یہ بہت مشکل ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے روسی معیشت تباہ ہو جائے گی۔ مغرب کی طاقتیں یقینا روسی معیشت کے دیگر شعبوں جیسے پاور سیکٹر وغیرہ پر مزید پابندیاں لگانے کے لیے آگے بڑھ سکتی ہیں لیکن کچھ ایسی سرخ لکیریں ہیں جو اگر پار کی گئیں تو مغرب کے لیے بھی مسائل پیدا ہونا شروع ہوجائیں گے۔
٭٭٭