آزادی کا مذاق نہ اُڑائو!!!

0
548
جاوید رانا

ہمارا یہ کالم جس وقت شائع ہوگا، ایک دن بعد وطن عزیز کے 15 ویں یوم آزادی کا جشن پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں پاکستانی منا رہے ہونگے، پاکستان کی سالمیت، خوشحالی اور تقدیس کے چرچے اور دعوے ہر زبان پر ہونگے، 20 مئی کے بھارت کی جارحیت کے جواب میں فتح و نصرت اور دنیا بھر قدر و منزلت کے سبب جشن آزادی کا اظہار یقیناً فزوں تر ہوگا، یقیناً جوش و جذبے اور وطن سے محبت کا ابلاغ کسی بھی زندہ قوم کا طرۂ امتیاز ہونا چاہیے لیکن وطن عزیز کے حالات فی الوقت کیا اس حقیقت کے مظہر ہیں جو قومی یکجہتی، سیاسی و جمہوری استقامت اور عوامی اُمنگوں سے عبارت کہلائیں؟ سچ بات تو یہ ہے کہ متذکرہ بالا اصولوں اور خصوصیات کی عملداری تو قائداعظم کی رحلت کے بعد کسی دور میں بھی نہیں رہی اور قانون ضرورت کے تحت آئین، قوانین، جمہوریت و عوامی مینڈیٹ کی دھجیاں اُڑا کر ڈنڈے، سوٹے اور زور کے بل پر کار ریاست و حکومت چلتا رہا۔ دھونس، دھاندلیوں اور قانون و عدالت کی موشگافیوں کے توسط سے کار ریاست و حکومت تو چلایا جاتا رہا لیکن بقول حکیم الامت، ”یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری” ہی رہی اور جمہور و جمہوری اقدار سے دوری اور عدم دلچسپی کا سبب بنتی رہی۔ وقت کیساتھ قوم کا اعتبار و رد عمل اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں وطن عزیز کی آزادی کی عصبیت، فرقہ واریت، سیاست اور منافرت سے بالا تر مشترکہ خوشی میں بھی اختلافی دراڑیں پڑ گئی ہیں۔
14 اگست کے حوالے سے ایک جانب سچے پاکستانی ملک اور بیرون ملک جشن آزادی منانے کیلئے تن من دھن سے مصروف ہیں وہیں سیاسی حوالوں سے اس خوشی کے موقع پر احتجاج و بائیکاٹ کے نام پر ان تقاریب کیخلاف اعلانات و منفی اقدامات کا پرچار و اہتمام کیا جا رہا ہے۔ یہاں شکاگو میں اتوار کے روز منعقدہ سالانہ پریڈ میں سرکلرکے ذریعے شرکت نہ کرنے کے اعلان سے تقریب متاثر ہوئی جو یقیناً دیگر کمیونٹیز کی نظر میں خوش کن نہیں تھی بلکہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارتی کمیونٹی کیلئے بغلیں بجانے کا سبب تھی۔ یہی نہیں وطن عزیز کی سب سے مقبول سیاسی پارٹی کی مقامی قیادت کی جانب سے یوم آزادی کے موقع پر بائیکاٹ و احتجاج کی ہدایت غیروں کی جانب سے وطن عزیز اور پاکستانیوں کا مذاق اُڑانے کے سواء کچھ نہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ گزشتہ تین برسوں سے موجودہ ہائبرڈ نظام اور ملک کے مقبول عوامی قائد عمران خان کے درمیان محاذ آرائی، حکومتی و ریاستی چیرہ دستیاں، جبر و سزائوں کے اقدامات اور جواباً تحریک انصاف اور عوام کے بھرپور احتجاج و قائد سے وفاداری پر مقتدرہ کے ایماء پر نا انصافی و غیر آئینی اقدامات کا جبری سلسلہ قومی وحدت کو بھی تار تار کر رہا ہے۔ 9 مئی کو بنیاد بنا کر عمران کے وفاداروں کیخلاف جال بچھانے کا وطیرہ کسی بھی درمیانی راستے تک پہنچنے کا راستہ مسدود کر چکا ہے۔ ادھر خان اپنے ٹھوس مؤقف پر اور عوامی سپورٹ کی وجہ سے ڈٹا ہوا ہے، نتیجہ یہ کہ حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات کی مزید خرابی سوشل میڈیا کے ان فراڈیوں اور ہرکاروں کی وجہ سے بھی ہو رہی ہے جو خان کے نام پر، اس کی حمایت میں صرف اپنا مال بنانے کے جھوٹے انکشافات، خود ساختہ دعوئوں حتیٰ کہ موجودہ رجیم اور کمزور حکومتی اتحاد کیخلاف غلط بیانی کر کے عوامی توجہ و مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ ہم ایک گزشتہ کالم میں بھی عرض کر چکے ہیں کہ پاکستان سے باہر بیٹھے یہ سوشل میڈیا جعلی صحافی، بلاگر اور تجزیہ کار ہرگز پی ٹی آئی کے حمایتی یا مخلص نہیں اور اپنے مفاد کے تحت اسٹیبلشمنٹ و خان کے درمیان محاذ آرائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری تحقیق کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان سوشل میڈیا والوں میں اکثریت کے لنک بھارت سے ہیں یا ایسے انڈین ہیں جو نام بدل کر پاکستان مخالف اور سیاسی تقسیم پر مبنی پروپیگنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ہمارے اس تجزیہ کی تصدیق ان کے چینلز پر ہندی ترجمے و پس منظر سے ہو سکتی ہے۔
ہم نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا، ”وطن کی قدر کر ناداں،وطن ہے تو سبھی کچھ ہے”۔ لیکن وطن کی مشترکہ خصوصی خوشی کے موقعہ پر وطن کے ذمہ داروں ریاست، حکومت اور سب سے بڑی سیاسی قیادت کے روئیے، اقدامات و اعلانات اس امر کی علامت ہیں کہ اتحاد و اتفاق اور میثاق سے ذاتی بغض و عناد انہیں زیادہ عزیز ہیں۔ تحریک انصاف کے اسیروں کو سزائیں 14 اگست سے چار دن قبل سنائی جانا اقتدار کی بڑی تقدیم ہے تو 14 اگست کو احتجاج و بائیکاٹ، حب الوطنی سے منافی اقدام ہے، ہماری عرض ہے!
وحدت قوم کی کوئی نہیں تدبیر الگ
ایک کڑی ٹوٹے تو ہو جاتی ہے زنجیر الگ
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here