حماس بمقابلہ اسرائیل !!!

0
87

اسرائیل کی مسلسل جارحیت اور کسی حل پر اتفاق نہ کرنے پر فلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے پانچ ہزار راکٹ برسا کر صیہونی ریاست کو اپنے رد عمل سے آگاہ کر دیا ہے۔اس کارروائی کے ساتھ ہی کئی طرح کے خدشات نے دنیا کو نرغے میں لے لیا ہے۔ حماس کا حملہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ ممالک کے لئے حیران کن ہے۔فرانس، امریکہ، جرمنی،یونان، بھارت ، یورپئین کمیشن اور نیٹو نے اسرائیل پر حماس کے حملوں کو دہشت گردی سے تعبیر کیا اور اسرائیل کے جوابی حملے کے حق کو درست قرار دیا ہے۔ایران، لبنان کی حزب اللہ اوریمن کے حوثی قبائل نے حماس اور فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور اسے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا تنازع حل نہ ہونے کے معاملے سے منسلک بتایا ہے۔پاکستان، سعودی عرب اور قطر نے تشدد کی ذمہ داری اسرائیل پر عاید کرتے ہوئے دو ریاستی حل کو امن کا ضامن قرار دیا ہے۔ سات اکتوبر کے روز ہونے والے راکٹ حملے کے ساتھ ایک ہی دن میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جن سے خدشہ پیدا ہوا گیا ہے کہ تازہ لڑائی دیگر محاذوں تک پھیل سکتی ہے۔ رپورٹسکے مطابق جوابی کارروائی میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فضائی حملوں میں 232 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔حماس کے حملوں میں کم از کم 250 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔حماس کے عسکری ونگ کے مطابق، اس نے درجنوں اسرائیلیوں کو پکڑ لیا ہے۔ غزہ کی حماس انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کا یہ حملہ مسجد اقصی کی بے حرمتی اور آباد کاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد کا ردعمل ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے محصور علاقے کے رہائشیوں سے کہا ہے کہ وہ “اب وہاں سے نکل جائیں”، اور کہا ہے کہ اسرائیلی افواج “حماس کے تمام ٹھکانوں کو ملبے میں تبدیل کر دیں گی”۔یہ صورتحال بتاتی ہے کہ اسرائیل اور اس کی حمایت کا اظہار کرنے والی عالمی طاقتوں نے فلسطینیوں کے مصائب کو جان بوجھ کر نظر انداز کر رکھا ہے۔فلسطین وا سرائیل کے ہمسائیہ ممالک اور وینزویلہ کا رد عمل حوصلہ افزا ہے جنہوں نے فلسطینی مزاحمت کاروں کی کارروائی کو قابض اسرائیل کے مسلسل مظالم کو اشتعال کی وجہ قرار دیا ۔ 1947 میں اقوام متحدہ نے قرارداد 181 منظور کی، اس قرار داد کو پارٹیشن پلان کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں فلسطین کے برطانوی مینڈیٹ کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ 14 مئی 1948 کو ریاست اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جس نے پہلی عرب اسرائیل جنگ کو جنم دیا۔ جنگ 1949 میں اسرائیل کی کامیابی کے ساتھ ختم ہوئی، لیکن 750,000 فلسطینی بے گھر ہوئے اور علاقے کو ان 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا: ریاست اسرائیل، مغربی کنارے کا علاقہ (دریائے اردن کا) اور غزہ کی پٹی۔اگرچہ بعد میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے اسرائیل اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی لیکن فلسطینیوں کی خود ارادیت اور خود مختاری کا سوال حل طلب رہا۔ 1987 میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں رہنے والے لاکھوں فلسطینی پہلی انتفادہ کے نام سے اسرائیلی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ 1993 میں اوسلو نے تنازعہ کی ثالثی کی۔ فلسطینیوں کے لیے مغربی کنارے اور غزہ میں خود اختیاری حکومت کے لیے ایک فریم ورک ترتیب دیا گیا۔ نئی قائم شدہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کی حکومت کے درمیان ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کا نظام فعال کیا گیا۔ 1995 میں اوسلو نے پہلے معاہدے کی توسیع کی۔ اس میں ایسی شرائط شامل کی گئیں جو مغربی کنارے کے 6 شہروں اور 450 قصبوں سے اسرائیل کے مکمل انخلا کو لازمی قرار دیتی تھیں۔ 2014 کے موسم گرما میں، فلسطینی علاقوں میں جھڑپوں نے اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان فوجی تصادم کو ہوا دی جس میں حماس نے اسرائیل پر تقریبا تین ہزار راکٹ فائر کیے۔ اسرائیل نے غزہ میں ایک بڑا حملہ کرتے ہوئے جوابی کارروائی کی۔اس کارروائی میں بڑی تعداد میں نہتے فلسطینی شہری جاں بحق ہوئے۔اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین لڑائی کو جنگ قرار دینا دراصل ایک ظالمانہ تصور ہے۔دونوں کی فوجی طاقت اورفوج کی تعداد کا کوئی مقابلہ سرے سے نہیں۔ فسلطین کا معاملہ مشرق وسطی میں تصادم اور تشدد کی بنیادی وجہ ہے۔اقوام متحدہ کا چارٹر کچھ بھی کہے اگر فلسطین و کشمیر جیسے تنازعات پر امن طریقے سے حل نہیں کئے جاتے تو دنیا میں امن کی امید نہیں کی جا سکتی۔رہی بات دو ریاستی حل کی تو اوسلو معاہدے میں فلسطینی تو اس پر راضی ہو گئے لیکن اسرائیل راضی ہونے کے باوجود فلسطینی عوام کو ان کا حق دینے پر تیار نہیں۔ حماس کے حملوں کے بعد مبصرین اس بات پر حیران ہیں کہ اسرائیل کے پاس جس عظیم الشان دفاعی و انٹیلی جنس نظام کی موجودگی کی بات کی جاتی تھی وہ نظام حماس کے حملوں کی نہ تو قبل از وقت اطلاع دے سکا ،نہ ہی راکٹ حملوں کو روک سکا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حماس جیسی نہتی تنظیم اسرائیل کے ساتھ بھڑنے کو تیار ہو سکتی ہے تو مسلم ممالک جرات کے ساتھ فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز کیوں بلند نہیں کر سکتے۔ وہ بڑے ممالک اور دفاعی طاقتیں جو آج اسرائیل کو مظلوم بتا رہی ہیں اس وقت بے حس ہو جاتی ہیں جب اسرائیلی فوج کم سن بچوں کو قتل کرتی اور فلسطینی خواتین کو زمین پر گھسیٹتی ہے۔اسرائیلی انتہا پسند اور ان کی فوج آئے روز مسجد اقصی میں گھس جاتے ہیں ۔فلسطینیوں کی زمین چھین لیتے ہیں۔جب تک دنیا غاصب کی مذمت اور مظلوم کا ساتھ نہیں دے گی تشدد جاری رہے گا اور دنیا کا امن خطرے میں رہے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here