جب نائین الیون ہوا تھا تو میں ان دنوں ایران کے دارالخلافہ تہران میں واقع تْوپ خانہ چوک کے دیسی پنجاب ہوٹل کی چارپائی پر قند منہ میں رکھے قہوے کی چسکیاں لے رہا تھا ۔لمحوں میں خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔میرا بڑا بھائی بلڈنگ زمیں بوس ہونے سے کئی ماہ پیشتر تک وہاں کام کیا کرتا تھا۔ مجھے بھی فکر لاحق ہوگئی ۔فون کیا لیکن شاید بلڈنگ پر لگے ٹاور کے گرنے سے تمام رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ مختلف سوچیں لیکن ایک سوچ کہ اب امریکہ چپ نہیں بیٹھے گا۔ دنیا کو تلپٹ کر دے گا اور ہوا بھی یہی ۔بش نے للکارہ اور دنیا بدل گئی۔ اب بیس سال بعد تین ٹریلین ڈالرز کی بربادی اور ہزاروں لاکھوں انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد صدر بائیڈن کو سمجھ آیا جس کا اظہار انہوں نے فتح کابل پر اپنی ”وکٹری سپیچ” میں بھی کیا کہ چین اور روس کے بہکاوے میں آکر امریکہ اپنے ڈالرز اور قیمتی امریکی جانیں ضائع نہیں کریگا۔ کاش یہ بات جارج بش سمجھ جاتے یا انکے باپ بش کی بیش بہا سمجھدار کھوپڑی میں آجاتی۔ جنگوں میں جھونکی گئی بے بہا رقم اگر افغانستان، عراق، شام، فلسطین، سوڈان اور لبیا کی ترقی پر لگ جاتی تو دنیا ایک بہتر جگہ ہوتی۔ ابھی جنگ کی وجہ سے ہو جانے والی تباہی کو سدھارنے اور اس کے اثرات پر قابو پانے میں مزید کتنے اخراجات ہونگے اور کتنا وقت لگے گا اس کا تخمینہ لگانا ابھی باقی ہے۔
موجودہ صورت حال کا جائزہ اگر لیں تو کابل ایئرپورٹ پر پھنسے امریکی یا امریکی نما افغانی کس قدر وہاں سے نکلنے کو بے چین ہیں انہیں اپنی جانوں کے لالے پڑے ہیں جبکہ طالبان نے عام معافی کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اسکا عملی نمونہ بھی پیش کردیا ہے نہ کسی کو آنے جانے سے روکا ہے نہ ہی صحافیوں کی رپورٹنگ میں کوئی خلل ڈالا ہے جس کا دل چاہے جہاں چاہے آئے جائے۔ جو چاہے لکھے جہاں چاہے لائیو ہو جائے۔ اب تو پاکستان نے بھی اپنے دل اور بارڈر کھول دیئے ہیں کابل میں پاکستان ایمبیسی اور چار بڑے صوبائی دارلخلافوں میں موجود پاکستانی کونصلیٹ پاکستانی ویزوں کے اجراء میں دن رات مشغول ہیں۔ کابل ایئرپورٹ پر دم گھٹنے سے بچوں سمیت متعدد لوگوں کی اموات سی سترہ طیارے کے پہیوں میں پھنسنے والے اور پروں سے گرنے والے افغانی۔ آہ کیا نفسا نفسی کا عالم ہے کیا ایک دفعہ پھر ریئل تھریٹ مل چکا جو غلطی بیس سال پہلے کی گئی کیا اب دوبارہ پھر سے دہرائی جائے گی۔ داعش کی دھمکی کے ساتھ ساتھ صوبہ پنج شیر کے احمد مسعود کو امریکہ اور انڈیا کی ہلہ شیری کیا کسی نئے کھیل کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ جیسے بقول ہیلری کلنٹن سوویت یونین کے جانے کے بعد مجاہدین کو ایک دوسرے سے لڑا کر دنیا اس نہج پر پہنچی۔ افغانیوں کو افغانیوں سے لڑا کر کیا حاصل ہو گا۔ مزید تباہی، مزید مہاجر، مزید بد امنی، معیشت کا اہم اصول کہ ہم اپنے وسائل کو بے دریغ غیر تعمیری کاموں پر خرچ کر کے دنیا کو ایک اچھی دنیا کیسے دے سکتے ہیں۔ دنیا اب گلوبل ویلج ہے جہاں اٹھائیس ملکوں کے علاوہ باقی میں اکثریت غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جہاں دو وقت کی روٹی ملنا محال پر باتیں انسانی حقوق کی کرتے ہیں۔ اسلحہ کے انبار اور منشیات کی خرید و فروخت سے ملنے والے سرمایہ سے امن خریدنے کی کاوشیں کس قدر فضول ہیں۔ کیا دنیا پھر سے ایک نئے تھریٹ کی لپیٹ میں ہے کوئی ہے جو اس بات کو سمجھ کر بڑوں کا سمجھا سکے۔