محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے کہے کچھ جملے ایسے شہرہ آفاق ہوئے کہ اب وہ ایک ٹرینڈ بن چکے ہیں۔ایسا ہی ایک جملہ ( تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے ) نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی اس کی دھوم ہے اور اب تو جیسے پڑوس ملک میں ایک دھماکہ دار تبدیلی آئی تو دھوم دھام مچ گئی ! حضرت علی کا ایک قول ہے دوست سے دوستی کرو ایک حد تک کیا معلوم وہ دشمن ہوجائے اور دشمن سے دشمنی کرو ایک حد تک کیا معلوم دوست ہوجائے ۔بس یہی قول ملکوں کے مابین تعلقات پرنظر آتا ہے اور صادق آتا ہے۔ ہمارا ایسا پڑوسی ملک جس سے تعلقات کا اتار چڑھائو آزادی کے بعد سے ہی جاری ہے ہر چند کہ اس ملک کی طرف سے مملکت پاک کو ماضی قریب و ماضی بعید میں کبھی بھی کوئی نہ تمغے ملے اور نہ ہی سراہا گیا۔ جب جمہوریت کے بعد ملک میں ضیاء دور کی آمریت کا آغاز ہوا اس کے ساتھ ہی ایک بڑی تبدیلی پڑوس میں موجود ملک کو لڑاکا افرادی قوت عالمی قوت کے زیر نگرانی اور مرضی و منشاء سے فراہم کی گئی۔ اس میں مملکت پاک سے جس تنظیم نے بھرپور حصہ ڈالا ایک مخصوص نظرئیے کاپرچار کیا وہ جماعت اسلامی تھی۔ خیر لڑاکا لوگ جو مجاہدین کہلائے ان کا فائنل نام طالبان ٹھہرا جن سے عشق و محبت اور عناددونوں ہی موسم کی طرح جاری رہے، کبھی تعلقات اچھے ہوتے تو مملکت پاک کے باسی سکون کا سانس لیتے اور جب پڑوس میںحالت خراب ہوتی تو یہاں بھی نزلہ گرتا۔ اب جن حالات میں پڑوس گھر چکا تھا اور معاشی تنگی، خانہ جنگی، دو بڑی طاقتوں کے مابین سینڈ وچ بنے عام لوگ ان کی نفسیات اور کمزوریاں جب سامنے آنے لگیں تو ہندوستان کو موقع ملا اور اس نے دولت کا اندھادھند استعمال کیا اور میجر گورائے اورکلبھوشن جیسے لوگ اپنی کمین گاہیں ایران و افغانستان میں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے اور اب ایک پراکسی وار کا آغاز ہوا جس میں حدف پاکستان ٹھہرا۔ افسوس کی بات جس کا خون بہا وہ بھی کلمہ گو اور جس کابہایا گیا وہ بھی کلمہ گو۔ خون بہانے کا خرچہ دینے والے کوئی بھی تھے بت پرست یا اہل کتاب تھے لیکن مسلمان نہ تھے۔ یہ کھیل برسہابرس چلتا رہا اور اچانک دو دھائیوں بعد ساری چالیں اور تدبیریں الٹی ہوئیں اور افغانستان سے جو بھی غیر ملکی فوج اور کانٹریکٹرز تھے وہ دم دبا کر بھاگے۔ ایسے میں ایسی تاریخی تبدیلی دیکھنے کو ملی کہ جو اس سے قبل نہ دیکھی اور نہ ہی سنی گئی تھی !! عام تجزیہ نگاروںنے خوب لکھا جس طرح فتح مکہ ہو اور خون خرابہ نہ ہوا افغانستان میں ایسی ہی مثالی فتح کی یاد دلادی۔ خیر فتح جب بھی مسلمانوںکو ہو تو دوسرا مسلمان خوش بھی ہوتا ہے اور سجدہ شکر بھی بجالاتا ہے۔ اس دفعہ انقلابی تبدیلی جو آئی اس میں سب سے بڑی تبدیلی مذہبی رواداری دیکھنے کو ملی۔ افغان ٹیلی ویژن سے پہلی مرتبہ مجلس امام حسین نشر ہوئی اور بالکل اس طرح کابل و دیگر علاقوں میںطالبان کے جنگجو سبیل امام حسین پر پہرہ دیتے نظر آئے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اب اقلیتوں کو اور دیگر مسالک کو بھی مذہبی رسومات کی آزادی ہوگی اور ان کا خون مذہبی بنیاد پر نہیں بہایا جائیگا۔ یہ سب باتیں انتہائی اہم ہیں اور ایسی تبدیلی ہے جو اس سے قبل نظر نہیں آئی۔
اس تبدیلی کے تناظر میں فتح مکہ کے بعد جو واقعات پیش آئے اس میں واقعہ کربلا کا پیش آنا بھی شامل ہے اور واقعہ حرہ کا پیش آنابھی جو یذید کے دور حکومت میں ہوا تھا۔ امید یہی ہے کہ تاریخ اب خود کو نہ دہرائے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ مسلمانوں کی تاریخ میںرقم نہ ہو۔ محرم الحرام کا مہینہ ویسے بھی مقدس ہے اور واقعہ کربلا ہم کو مذہبی رواداری اور انسانیت کا درس دیتا ہے جس میںنواسہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے دین کی سربلندی کیلئے اپنے اصحاب کے ساتھ شہادت کا بلند مرتبہ پایا اور ایک فاسق وفاجر کی بیعت سے انکار کرکے تاقیامت حق و باطل کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی۔ جس کی روشنی میں مسلمان اپنی زندگیوں کو بہتر بناسکتے ہیں اور جیئو اور جینے دو کے اصول کے ساتھ مذہبی آزادی اور مذہبی رسومات و احکام کو بجا لاسکتے ہیں۔یہ معرکہ حق و باطل ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا اور تاقیامت جاری رہیگا ۔جب جب شیطان کے آلہ کار میدان سجائیں گیاللہ کی طرف سے مدد ضرور آئیگی اور حق کی فتح ہوگی۔ زندگی تو موت کی امانت ہے دعا ہے ہر مسلمان جب جیئے تو رب کی رضا کیلیے جیئے اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جیئے اور جب وقت آخر آئے تو بھی اللہ کی رضا شامل ہو اور دنیا و آخرت میںسرخرو ہو۔آمین