قسط اول
اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہند و پاک میں بالخصوص دین اسلام کی جو جلوہ آرائیاں نظر آرہی ہیں یہ صوفیانِ کرام اور اولیائے عظام رضی اللہ تعالی عنہم کی جہد مسلسل سعی پیہم اور روحانی فیوض و برکات کے ناقابل فراموش حسین ثمرات و نتائج ہیں۔ ان ذوات مقدسہ نے اپنے اخلاقی ، ایمانی اور روحانی اقدار سے کفر و شرک کا نہ صرف قلع قمع کیا بلکہ ہر چہار جانب اسلام کی روشنیاں بکھیریں۔ بلفظ دیگر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان تقدس مآب محبوبان خدا نے گم گشتہ راہوں کے دلوں میں حلاوت ایمان کے پہلو بہ پہلو خلوص وللہیت ، ذوق اتباع سنت، حب شہنشاہ رسالت، نور بصیرت اور وسعت فہم و ادراک کی قندیلیں فروزاں کر دیں۔ ان پاکباز ہستیوں میں حضور خواجہ بندہ نواز گیسو در از علیہ الرحمہ کا اسم گرامی انتہائی نمایاں اور آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
سلسلہ چشتیہ کے بزرگوں میں حضور خواجہ بندہ گیسو د را از علیہ الرحمہ کا مقام صرف بلند ہی نہیں بلکہ آپ کو ایک امتیازی خصوصیت و انفرادیت اس طرح حاصل ہے کہ پ ایسے کثیر التصانیف بزرگ ہیں کہ آپ کی کثرت تصانیف کو دیکھتے ہوئے آپ کو سلطان القلم جیسے لقب سے ملقب کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی علیہ الرحمہ نے آپ کے انداز تصنیف و تالیف کی غیر معمولی خدا داد لیاقت و صلاحیت کو دیکھتے ہوئے جہاں اس کار خیر کو جاری و ساری رکھنے کی ہدایت کی تھی وہیں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا مرا بہ تو کار است یعنی مجھے تم سے کام لینا ہے۔
یوں تو آپ کو مختلف علوم وفنون میں مہارت تامہ اور عبور و دسترس حاصل تھی لیکن بالخصوص قرآن وحدیث اور فقہ و تصوف میں آپ کو اس قدر ید طولی حاصل تھا کہ آپ مذکورہ فنون پر جب درس دیا کرتے تھے تو طلبہ تو طلبہ بڑے بڑے علما وفقہا بھی آپ کے حلقہ درس میں شریک ہونا اپنے لیے وجہ افتخار سمجھتے تھے اور آپ سے خوب استفادہ کرتے اور فرماتے کہ یہاں درس میں بیٹھنے کے بعد ہمارے علم میں خاصہ اضافہ ہو جاتا ہے اور بہت سارے لا ینحل مسائل کا بہ آسانی حل نکل آتا ہے۔ نتیجتا ہمارے تر دو ذہنی اور انتشار فکری کا یکسر خاتمہ ہو جاتا ہے۔ علم و حکمت کی گر ہیں اس طرح کھلتی چلی جاتی ہیں لگتا ہے کہ ہمارے اذہان و قلوب معارف و حکم کا گراں بہا گنجینہ بن گئے ہیں۔مختلف علوم و فنون پر آپ کی دسترس کی روشن دلیل آپ کی گراں قدر تصنیفات ہیں۔ آپ کی تصنیفات صرف فارسی میں نہیں بلکہ عربی زبان میں بھی ملتی ہیں۔ فارسی اور عربی میں آپ کی تصنیفات کی تعداد تقریبا ایک سو پانچ ہے۔
٭٭٭