افغانستان اور ہم

0
118
جاوید رانا

طالبان کے افغانستان میں کنٹرول سنبھالنے کے بعد عالمی منظر نامہ اس طرح سے خلط ملط ہو گیا ہے کہ دنیا کی مختلف الجہت حکومتیں اور قوتیں صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق اس صورتحال پر غیر یقینی کا بھی شکار ہیں اور اس حقیقت کو بھی سمجھ رہی ہیں کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال سے صرف خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی تناظر میں بھی کئی اہم تبدیلیاں اور واقعات رونما ہونے کے امکانات ہیں۔ یہ تبدیلیاں محض سیاسی ہی نہیں، معاشی اور حربی و اسٹرٹیجک حوالوں سے بھی اثر انداز ہو سکتی ہیں اور اس سے افغانستان یا ملحقہ ممالک ہی نہیں بلکہ امریکہ، یورپ، وسط ایشیائی ممالک و روس کے حالات و معاملات پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ طالبان کے امریکہ و افغانستان کی حکومت سے قبضہ چھڑائے ہوئے دو ہفتے ہونے کو آئے ہیں۔ طالبان رہنماؤں کے پالیسی بیانات اور متعدد اقدامات اس امر کی نشاندہی کر تے ہیں کہ 1996ء کے طالبان اور آج کی قیادت میں سوچ اور عالمی حکمت عملی کے تناظر میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ تاہم اس تبدیلی کو عالمی قوتیں اور ادارے ہضم نہیں کر پا رہے ہیں اور اپنے تحفظات کا مختلف وجوہ کو بنیاد بناتے ہوئے اظہار کر رہے ہیں۔
طالبان سے دوحا میں امریکی انخلاء اور فوجوں کی واپسی کا معاہدہ کرنے والا امریکہ بھی اب تک اسقدر سرعت کے باعث طالبان کے اختیار سنبھالنے پر کنفیوژ ہے۔ اس حقیقت کی نشاندہی صدر بائیڈن، سیکرٹری دفاع، آرمی چیف، ترجمان امور خارجہ و پینٹاگان کے متضاد بیانات سے ہوتی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ چین، روس نے تو طالبان کے اقتدار کو تسلیم کر لیا ہے جبکہ کینیڈا، برطانیہ اور یورپی ممالک نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کیلئے طالبان کے حقوق انسانی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے آئندہ رویے اور پالیسیوں سے مشروط کر دیا ہے۔
سعودی عرب، عرب امارات و دیگر عرب ممالک خموشی کی مہر لگائے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت دیگر انسانی حقوق کے ادارے افغانستان میں قیام امن، مخلوط حکومت اور مساویانہ حقوق کو بنیاد بنا کر طالبان کے اختیار و اقتدار کو ماننے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں روس و چین کی طالبان کی حمایت کے باوجود امریکہ ، برطانیہ، فرانس و بھارت کی مخالفت سے قرارداد طالبان کے حق میں نہ جا سکی۔ طالبان سے بغض کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک جانب امریکہ نے افغان مرکزی بینک کے 9.5 ملین ڈالرز منجمد کئے تو دوسری جانب عالمی بینک اور دیگر ممالک و مالی اداروں نے کسی بھی قسم کی مالی امداد و تعاون سے انکار کر دیا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ طالبان کو مالی دشواریوں سے دوچار کرکے اپنی شرائط کی عملداری پر مجبور کیا جائے اور نظام مملکت و حکومت کو دشوار بنا دیا جائے۔ اسی مقصد کیلئے اس بات کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ افغانستان میں موجود جہادی و مختلف لسانی گروپوں میں متنازعہ حالات و کیفیت پیدا کرکے طالبان کے پر امن حکومت سازی کے عمل کو ناکام بنایا جا سکے۔
اب تک تو طالبان قیادت کمال ہوشیاری و خوبی سے ایسے اقدامات کر رہی ہے جو افغانستان اور عوام کے حق میں نظر آتے ہیں لیکن مخالف اندرونی و بیرونی قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ہنوز سرگرم ہیں۔ طالبان کا ملک میں موجود تمام متحارب و مخالف گروپس کو عام معافی کا اعلان، وسیع البنیاد حکومت کے قیام کا عندیہ اور اپنی سرزمین سے کسی بھی ملک کیخلاف سرگرمیوں کی اجازت نہ دینے کا عزم اسی امر کی نشاندہی ہے کہ آج کی طالبان قیادت پچیس سال قبل کی قیادت کے مقابلے میں زیادہ شعور رکھنے والی اور موجودہ عالمی منظر نامے سے مطابقت کرکے عمل پذیری کی صلاحیت کی حامل ہے۔ تاہم عالمی طاقتوں کے معاشی مفادات کے تحت یہ سچائی صاف نظر آتی ہے کہ وہ افغانستان کو شورش و بے امنی سے ہی دو چار رکھنا چاہتی ہیں۔ افغانستان میں قیام امن اور تمام متحارب گروپس کا اشتراک اس کے کامیاب سفر کے ساتھ خطے میں موجود ہمسایوں خصوصاً چین، پاکستان، ایران ، وسط ایشیائی ریاستوں اور روس کی معاشی و اسٹریٹجک بہتری و ترقی کاموجب ہو سکتا ہے بلکہ دنیا میں واحد مقتدر ریاست کے تصور کو بھی ختم کر سکتا ہے۔ اب جب افغانستان میں تبدیلی کے بعد بھارت کو ہر طرح سے منہ کی کھانی پڑی ہے اور امریکہ کو چین کے مقابلے میں بھارت کو خطہ میں مقتدر بنانے اور اپنے مقاصد کا حصول خطرے میں جاتا ہوا نظر آرہا ہے تو یہ قوتیں ہر اس اقدام پر عمل کرنا چاہتی ہیں جو افغانستان میں بد امنی و انتشار کا باعث بنے اور اس کے اثرات چین، پاکستان و دیگر متعلقہ ممالک کی معاشی ترقی و امن سکون پر اثرا انداز ہوں۔ طالبان کے تمام تر اقدامات اور پر سکون افغانستان کی کوششوں کے باوجود پنچ شیر میں احمد مسعود کا طالبان سے محاذ آرائی کا اعلان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ البتہ اپنی حربی قوت کی کمی اور شمالی افغانستان کے دیگر گروپس امر ا ﷲ صالح وغیر نیز امریکہ کی جانب سے سپورٹ کے فقدان نے اس کے ارادوں کو تکمیل سے قبل ہی متزلزل کر دیا ہے۔
درحقیقت طالبان اپنی سیاسی بساط پر دانشوری سے درست چالیں چل رہے ہیں۔ جہاں انہوں نے بیس برس سے اپنے قطعی مخالف کرزئی، عبداﷲ اور دیگر لیڈروں کو بھی معافی اور مذاکرات سے نظام مملکت و قیام حکومت کی دعوت دینے کے ساتھ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ہی ماضی کے متحارب گروپوں کو بھی ساتھ ملانے کے اقدامات کرنے شروع کئے ہیں۔ مولودی مہدی کا بطور گورنر تقرر شیعہ و ہزارہ کمیونٹی کو راغب کرنے کا اہم قدم ہے۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی میں ٹی ٹی پی کے ان رہنماؤں و افراد کو بھی رہا کر دیا گیا ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں پاکستان کو مطلوب بھی ہیں اور جنہیں اقوام متحدہ وامریکہ ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے باعث کالعدم و دہشت گرد قرار دے چکے ہیں۔ افغانستان کے موجودہ منظر نامہ سے خود افغانستان کے علاوہ اگر کوئی ملک سب سے زیادہ متاثر ہو سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے ۔ ہماری قوم کا عجیب وطیرہ ہے کہ کسی خبر یا عمل میں تھوڑا سا بھی مثبت پہلو ہو تو بھنگڑے ڈالنے لگتی ہے۔ بڑھکیں مارنا شروع کر دیتی ہے۔ ایشوز کے عوامل و عواقب کو پرکھنے پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ یہ رحجان عوام ہی نہیں ، سیاسی و حکومتی اشرافیہ میں بھی یکساں ہے۔ کالم کی طوالت سے گریز کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ طالبان قیادت نے اگرچہ پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کو روکنے کا عندیہ دیا ہے ساتھ ہی حکومت پاکستان سے ہمارے اسی ہزار افراد (بشمول APSکے شہیدوں) اور ہزاروں عسکری جوانوں کے قاتلوں کو عام معافی دینے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔ ہمارے لوگ بشمول حکومتی ارکان، میڈیا اینکرز اور مبصرین اس بات پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی اب پاکستان پر حملہ آور نہیں ہو گی۔ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کر رہے ہیں کہ کیا ہماری حکومت ہمارے ہزاروں شہیدوں کا خون معاف کرنے کا غیر منصفانہ اقدام کرنے پر راضی ہو گی۔ وزیر اعظم اور سپہ سالار کا یہ مؤقف سو فیصد درست ہے کہ پر امن افغانستان ، پاکستان میں امن خوشحالی اور ترقی کا سبب ہو گا لیکن کیا بلاسوچے سمجھے ( افغانستان کی موجودہ صورتحال میں) کئے گئے فیصلے وطن عزیز کے حق میں ہو سکتے ہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نازک ترین صورتحال میں تمام اسٹیک ہولڈرز اجتماعی مشاورت و یکجائی سے تمام متعلقہ ایشوز پر فیصلہ سازی کریں کہ پاکستان افغان صورتحال کے تناظر میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ خصوصاً اس حوالے سے کہ افغانستان کے موجودہ حالات میں بھارت دنیا میں سب سے زیادہ ناکامی سے دوچار ہوا ہے اور زخمی سانپ ڈنک مارنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔ قوم کا اجتماعی مؤقف اور فیصلہ دنیا کے سامنے لانے کیلئے سیاسی مفادات و اختلافات سے بالاتر ہو کر اتحاد و اجتماعیت لازم ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here