عید الفطر کی قدرومنزلت!!!

0
76
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

شوال کا چاند دیکھتے ہی ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ایک ہی آواز گونج رہی ہوتی ہے کہ عید کی آمد ہے صبح عید ہے عید جب بھی آتی ہے خوشیوں اور شادمانیوں کا تانتا باندھ دیتی ہے ہر انسان خوش خوش دیکھائی دیتا ہے اس کی آمد سے دل کی پریشانیوں کا تدارک ہوتا ہے انسان سکون حاصل کرتا ہے کیونکہ یہ عید اسے دل وجان کے گھر کی طرف دعوت دیتی ہے اس عید پر ایک دوسرے کو تحفے وغیرہ بھی دیئے جاتے ہیں ایک دوسرے کو دعوت دے کر منہ بھی میٹھا کروایا جاتا ہے دوسرے لفظوں میں اسے میٹھی عید بھی کہتے ہیں اور سیویوں والی عید بھی کہتے ہیں کیونکہ اس عید پر سیویاں پکائی جاتی ہیں اس عید سے بچہ بچہ واقف ہے اسکے دل میں امیدوں کے چراغ روشن ہونے لگتے ہیں کیونکہ اسے نقدی ملنے کی بڑی امید ہوتی ہے لفظ عید پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ عید اصل میں لفظ عود تھا جس کا وائو یا میں تبدیل ہوگیا اور عید بن گیا اس طرح اسکی اصل موعود ہے موعود کے معنی واپسی اور تکرار کے ہیں اور شاید اسی سبب سے اس کو عید کا نام دیا گیا ہے کیونکہ یہ ہر سال آتی ہے عید کا مطلب کسی چیز کے پے در پے واپسی کے ہیں، اس لئے اس کا نام عید رکھا گیا ہے کیونکہ یہ ہر سال خوشی وشادمانی لیکر آتی ہے اس عید کے دن ہر ایک کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہوتا ہے اچھا لباس پہنا ہوتا ہے خوشبو لگائی ہوتی ہے اور بے اختیار ایک دوسرے کیلئے دعائیں نکل رہی ہوتی ہیں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عید دعائیں کرنے کا نام ہے عید کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ غم سے نکل کر خوشی میں آنا کسی مشکل سے آزاد ہونا ہے قرآن میں خدا فرماتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمارے لیے آسمان سے مائدہ (کھانا) نازل فرما جو ہمارے آج اور کل کے لئے عید اور نشانی ہو اس آیت میں حضرت عیسی نے اللہ سے آسمانی دسترخوان اور غذا کی درخواست کرتے ہوئے آسمان سے غذا کے نزول کو عید کہا ہے حضرت ابراہیم کے زمانے میں بھی عید منانے کا دستور رہا ہندوئوں میں بھی دیوالی وہر عیدیں ہیں لیکن وہ بزرگوں کا تبرک اور واقعات کی یادگار ہیں یہ اصلی عیدیں نہیں ہیں عید کا دن ایک پیغام مسرت بھی دیتا ہے مثلا جب کوئی طالبعلم امتحان دیتا ہے تو اسے کچھ عرصہ کے بعد اس کے نتیجہ سے آگاہ کیا جاتا ہے تو وہ اپنی کامیابی پر کس قدر خوش ہوتا ہے اس کا اندازہ وہ خو د ہی کر سکتا ہے یہ اس کے لئے ایک خوشی کا دن ہوتا ہے جو اسے کامیاب ہونے کے بعد میسر ہواہے یہ اس کے لئے عید کا دن ہے جب کوئی قوم یا کوئی شخص اسیری کے دن دیکھے تو اس پر مشکلات ہی مشکلات ہوتی ہیں آخر ایک نہ ایک دن اس کیلئے رہائی کی خبر بھی آجاتی ہے تو وہ مشکلات سے آزاد ہونے پر خوشی مناتا ہے لوگ اسے مبارک دینے آتے ہیں گویاکہ یہ اس کے لئے ایک عید کا دن ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کیلئے قید کے بعد آزادی کا پہلا دن ہے اسلام کے مقدس قانون میں جہاں دوسری عیدیں شامل ہیں ان سے قطع نظر دو عیدوں کا خاص طور پر اہتمام کرنے کیلئے بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے اور یہ دو عیدیں عید الفطراور عید قربان یا عید الاضحی ہیں یہ وہ عیدیں ہیں کہ اس میں مسلمان دو رکعت نماز شکرانہ ادا کرتے ہیں جس کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے جو لوگ اس سے پہلے مسجد میں جانے سے کتراتے ہیں اس دن وہ بھی نماز عید کیلئے دوڑ پڑتے ہیں دوسرے لفظوں میں نماز کو بھولے ہوئے انسان کیلئے عید کا دن راستہ دکھانے کا دن ہے جس سے انسان کو خدا کی یاد دہانی اور اس کی مخلوق ہونے کا اعتراف ہوتا ہے اس میں مسلمانوں کیلئے عظیم کامیابی پوشیدہ ہے عید الفطر کو اس معنی میں فطر کہا جاتا ہے کہ اس کے روزہ رکھنے کے بعد اس کیلئے اور کھانے پینے سے پابندی اٹھائی جاتی ہے کچھ ایسی بھی عیدین ہیں جو قومی اور روایتی عیدیں کہلاتی ہیں جن کی بنیاد انسانی فطرت میں اپنے ماحول رہن سہن اور تہذیب وتمدن کے زیر اثر ہیں یہ خاص تہوار ہیں جو بڑی شان وشوکت سے منائے جاتے ہیں جن کا تعلق معاشروں کے مقامی حالات وواقعات یا عالمی سطح کے واقعات سے ہوتا ہے اسلام نے ان تہواروں پر کوئی پابندی عائد نہیں کی مثلا ہمارے ملک میں قائداعظم کا تہوار یا لیاقت علی خان کا تہوار محمد علی جوہر کا تہوار علامہ اقبال کا تہوار یا جوہر نظامی کا تہوار وغیرہ جو ان کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوئے منائے جاتے ہیں اگر ان تہواروں پر غور کیا جائے تو موجودہ زمانے یا گذشتہ دور سے یہودنصاری اور عربوں نے اختیار کی ہوئی ہیں تو ان تمام تقریبوں کی مرکزی بنیاد دوستی محبت بھائی چارہ اورانسان دوستی ہے جس کی جڑیں زندگی کے چشمے سے سیراب ہوتی ہے اور آئندہ نسل ان واقعات سے راہنمائی حاصل کرتی ہے اور اس سے عبرت حاصل کرتی ہیں اور اس سے اہم اور مفید سبق حاصل کرتی ہیں اگر دینی اور مذہبی اور قومی یا روایتی عیدیوں پر نگاہ کی جائے تو معلوم ہوگا کہ مذہبی عیدیں انسان کے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں اور جبکہ قومی عید ظاہری اور بیرونی اور فطری تبدیلی پیدا کرتی ہے اسلامی عیدوں میں ایک ایسی عید بھی ہے جو موسموں اور آب وہوا کے تبدیل ہونے کی اطلاع دیتی ہے جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں اس عید کو نوروز کے نام سے پکارا جاتا ہے اور یہ 21 مارچ کو منائی جاتی ہے ہر سال 21 مارچ کا دن موسموں کی تبدیلی اور آب وہوا کی تبدیلی کا دن ہے اسی طرح ایک عید عید الفطر ہے اور یہ عید ایک مومن انسان میں پیدا ہونے والی روحانی تبدیلی کی علامت ہے صاحبانِ تقوی کے نزدیک رمضان کا مہینہ بڑی برکت کا مہینہ ہے اور یہ سال کا پہلا مہینہ ہے جس کے اختتام ہونے پر عید الفطر کا دن آتا ہے وہ پہلا دن سمجھا جاتا ہے جس میں کھانا اور پینا حلال ہو جاتا ہے اسی طرح دوسری عیدیں بھی ہیں جو اپنا ایک خاص پیغام اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں مثلا عید بعث تکمیل دین کی عید اور عید میلاد النبی کسی روحانی پیشوا کا جشن ولادت وغیرہ اس دن ایک مومن اپنے فرائض انجام دے کر فارغ ہوتا ہے تو اسے ایک بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ وہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہوگیا عید کا دن ہر ایک کے لئے ہوتا ہے خوشی کی لہر ہر گلی وکوچہ سے گونجتی ہے اور زندگی معمول پر آجاتی ہے یاد رکھیے عرفا عید کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں اور ہر وقت اپنی اندرونی وبیرونی حالت کی تطہیر کو عید سمجھتے ہیں ایک صوفی نے کہا تھا کہ سال میں دو مرتبہ عید منانا عوام کا کام ہے مگر صوفی کا ہر لمحہ اور ہر سانس جو طہارت کے ساتھ گزر جائے عید قرار دیتا ہے یعنی اپنے نفس کی اصلاح کو عید کہتے ہیں حضرت علی علیہ اسلام نے ایک دفعہ عید فطر کے موقع پر اپنے اصحاب سے فرمایا تھا کہ آج اس کی عید ہے جس نے روزے خدا کیلئے رکھے ہیں اور روزوں کے صلہ کا دن ہے مگر جس دن انسان گناہ نہ کرے اس کیلئے وہی دن عید کا دن ہے جو مومن نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرکے اور نفس امارہ کے خلاف جہاد کرکے اپنی مشکل گھڑیوں میں کامیاب ہوگیا وہی عید منانے کا حق دار بھی ہے عید کے دن مسلمانوں کا نماز عید کیلئے اکٹھا ہونا اسلام کی طاقت کااظہار ہے اور دشمن پر رعب طاری کرنے کا دن ہے اور یہ عید کی شکل میں مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے جب کسی کو کوئی افسر یا اس کا دوست تحفہ دیتا ہے تو وہ اسکی بڑی قدر کرتا ہے کہ فلاں نے مجھے تحفہ دیا جو جسے اللہ تعالی جیسا بادشاہ وخالق تحفہ دے تو اس کی خوشی کی کوئی حد ہوگی وہ پھولا نہ سمائے گا ایک مزدور کو مزدوری اس وقت تک نہیں ملتی جب تک وہ دن مکمل نہیں کر لیتا اسی طرح ماہ رمضان کے روزے مکمل ہونے کے بعد ہی اسے روزوں کی جزا ملے گی اس پر زکو فطر بھی ادا کرنی ہوگی اور دو رکعت عید کی نماز بھی ادا کرنی ہوگی ایک دوسرے سے گلے بھی ملنا ہوگا اور کدورتوں کو ختم کرنا ہوگا ایسے عید ہونی چاہئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here