امریکی عوام نے چونکہ برطانوی شکنجے سے آزادی حاصل کی تھی، اس لئے امریکہ کی تحریک ِ آزادی کے تقریبا تمام رہنما اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ برطانیہ اگرچہ کہ ایک عالمی طاقت ہے جس کی حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا، مگر اب ایک یہ آزاد اور خودمختار مملکت نہیں رہا بلکہ یہ 1694 میں ایک نجی بینک کے سرکاری چارٹر کے حصول کے بعد بننے والے بینک آف انگلینڈ کی گروی سلطنت بن چکا ہے۔ سترھویں صدی کے آخر تک برطانیہ اپنی غلط حکمت ِ عملی کی وجہ سے فرانس اور ہالینڈ کے ساتھ پچاس سال سے بھی لمبی جنگ کے نتیجے میں معاشی طور پر تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ حکومت کے پاس کاروبارِ سلطنت چلانے کے لئے بھی سرمایہ موجود نہیں تھا۔ ایسے میں حکومت ِ برطانیہ نے ملک میں سود پر قرض دینے والے ایک بینک نما گروہ سے قرض مانگا۔اس قرض کے بدلے میں یہ بینک جو کہ ایک عام سا لوگوں کو قرض دینے والا ادارہ تھا،اس نے مطالبہ کیا کہ اس کے بینک کو حکومتی چارٹر دیا جائے۔ یعنی ایک پرائیویٹ بینک قائم کرنے کی اجازت دی جائے جسے حکومتی منظوری حاصل ہو۔ یہ جدید سودی مالیاتی نظام کا پہلا دھوکہ تھا۔ یعنی ایک بینک جس کی ملکیت چند عام شہریوں کے پاس تھی اسے بینک آف انگلینڈ کا نام دیا گیا تاکہ لوگ اسے ایک سرکاری بینک سمجھ کر اس پر بھروسہ کریں۔ اس کے بعد دیگر پرائیویٹ کارپوریشنوں کی طرح بینک آف انگلینڈ نے بھی اپنے آغاز میں سرمائے کے حصول کے لئے مارکیٹ میں اپنے شیئرز فروخت کئے۔ اس بینک کے سرمایہ کار جن کا نام آج تک صیغہ راز میں ہے، ان میں سے ہر ایک نے بارہ لاکھ پچاس ہزار برطانوی پونڈ سونے کے سکوں کی صورت میں بینک کے پاس رکھوائے۔ ان سکوں کو ریزرو رکھ کر ان کے بدلے میں بینک کو برطانوی حکومت نے کاغذی کرنسی کے اجرا کی جو اجازت دی تھی اور جسے اس دور میں “Promissory note” یعنی وعدے کی دستاویز کہا جاتا تھا، بینک نے وہ نوٹ جاری کرنا شروع کر دیئے۔ یوں ان وعدے کی دستاویزات پر بینک نے حکومت اور عوام کو قرض دینا شروع کیا۔ بینک بغیر کسی بھی قسم کی ذمہ داری اور اپنے پاس موجود سونے کے ذخائر کی پرواہ کئے بغیر نوٹ چھاپتا رہا جسے سرمائے کی تخلیق کہا جاتا تھا۔ یعنی ایک نجی ملکیت کا بینک جسے حکومت ِ برطانیہ کی منظوری حاصل تھی، اس نے کاغذی کرنسی کی صورت میں اس قدر سرمایہ تخلیق کیا جو اس کے پاس سونے، چاندی، یا کسی اور صورت میں موجود ہی نہیں تھا۔ اس دھوکے، فراڈ اور چالبازی کو معاشیات کی زبان میں ایک پرفریب اصطلاح تخلیق کر کے، اسے ایک اعلی معاشی اصول کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ اس اصطلاح کا مطلب ہے کہ ایک بینک ڈیپازٹ لیتا ہے، قرض دیتا ہے یا سرمایہ کاری کرتا ہے اور اس سب کے بدلے اپنی پوری سرمایہ کاری کا ایک تھوڑا سا حصہ کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے۔ یعنی عام حالات میں اگر میرے پاس صرف دس ارب کی دولت ہے جو سونے اور چاندی یا کسی اور صورت موجود ہے مگر میں سو ارب کے نوٹ یا وعدے کی پرچیاں تقسیم کر دوں تو مجھے فورا جیل بھیج دیا جائے گا۔ لیکن چونکہ بینک کے اس قسم کے دھوکے اور فراڈ کی سرپرستی حکومت خود کر رہی ہوتی ہے اس لئے اسے کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاتا اور وہ لوگوں کے ساتھ مسلسل دھوکہ دہی کر رہا ہوتا ہے۔ بینک آف انگلینڈ کے اس پرفریب کاروبار کے بارے میں ولیم ٹی سٹل نے بینک آف انگلینڈ کے بارے میں لکھا بینک آف انگلینڈ کو قانونی جواز دینا اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہ پرائیویٹ افراد کے فائدے کیلئے انہیں سرکاری کرنسی جعلی طور پر چھاپنے کی اجازت دی جائے، ولیم ٹی سٹل اپنی کتابوں کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ پہلی کتاب امریکی پرائیوٹ بینکوں کے امریکی معیشت اور حکومت پر کنٹرول کے بارے میں ایک طویل تبصرہ ہے اور دوسری کتاب دنیا بھر میں پھیلی غربت اور بے روزگاری میں سرمایہ دارانہ معیشت کے کردار کے بارے میں طویل بحث ہے۔ یہ تھی اس دور کی برطانیہ کی معیشت و سیاست جب امریکہ نے اس سے آزادی کی لڑائی لڑنا شروع کی۔ اس لڑائی کے سات اہم رہنما تھے،جنہیں “Seven Fathers” یعنی امریکی قوم کے سات باپ کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک تھامس جیفرسن (Thomes Jefferson) تھا جو امریکہ کا آٹھ سال کی مدت کے لئے تیسرا صدر بھی رہا۔ یہ شخص ان پانچ اراکین کی کمیٹی میں بھی شامل تھا جنہوں نے آزادی کا اعلامیہ (Declaration of Independence) تحریر تھا۔ اپنے پیشے کے اعتبار سے وہ ایک قانون دان تھا مگر ایک سیاسی اور معاشی فلسفی کے طور پر بھی اس کی حیثیت مسلم ہے۔ امریکہ جب آزاد ہوا تو وہاں کے سرمایہ داروں نے بھی برطانیہ کی طرز پر پرائیویٹ بینکاری کو سرکاری سرپرستی کے ذریعے امریکی معیشت پر قبضہ کرنا چاہا،لیکن تھامس جیفرسن نے کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اس خطرے سے یوں آگاہ کیا: “I believe that banking institutions are more dangerous to our liberties than standing armies. If the American people ever allow private banks to control the issue of their currency, … the banks … will deprive the people of all property until their children wake-up homeless on the continent their fathers conquered.” میں اس بات پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ پرائیویٹ بینکاری کے ادارے ہماری آزادیوں کے لئے مسلح افواج سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ اگر امریکی عوام نے کبھی بھی پرائیویٹ بینکوں کو کرنسی کے معاملات پر اختیار دیا تو یہ لوگوں کو ان کی جائیدادوں تک سے محروم کر دیں گے اور جب وہ اس المیے سے باخبر ہو چکے ہوں گے تو ان کے بچے اسی سرزمین پر بے گھر ہوں گے جسے ان کے آبا و اجداد نے فتح کیا تھا۔ تھامس جیفرسن کی امریکی عوام کو 1804 میں دی گئی یہ وارننگ دو سو سال بعد حرف بہ حرف درست ثابت ہو رہی ہے۔ امریکہ جیسی عالمی طاقت میں چار کروڑ لوگ کھانے کے لئے فوڈ سٹیمپ پر گزارا کرتے ہیں اور ان سے دگنے بے گھر ہیں اور ٹینٹوں میں رہ رہے ہیں اور یہ سب صرف ایک ادارے کی وجہ سے ہو رہا ہے جس کا نام ہے فیڈریل ریزرو سسٹم (Federal Reserve System)۔ یہ سسٹم کیا ہے؟ یہ پرائیویٹ بینکوں کا ایک گروہ ہے جس نے امریکی عوام سے سرمائے کی تخلیق کا اختیار چھین رکھا ہے۔ دھوکہ اس قدر خوفناک ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ فیڈرل ریزو ایک سرکاری ادارہ ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
٭٭٭