اللہ تعالی نے سورہ ال البقرہ میں آیت نمبر 82 میں فرمایا ہے اور لوگوں سے بھلی بات کہو یہ حکم اللہ کا اس کا سلیقہ کہاں سے پتا چلے گا کہ گفتگو کیسے کی جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی عملی تفسیر تھے آپ کا لقب ہی صادق اور امین تھا نبوت سے پہلے ہی ۔ آپ کا انداز گفتگو کیسا تھا جب آپ مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کے اخلاق اور آپ کی گفتگو سے مرعوب ہوئیاور آپ پر کثرت سے ایمان لائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ سچ بولتے جامع بات کرتے جب کسی سے گفتگو کرتے تو اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہوجاتے جب ہاتھ ملاتے تو جب تک ہاتھ ملانے والا نہ چھوڑ دیتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ نہ چھوڑتے مذاق نہیں اڑاتے قہقہ مار کرنہیں ہنستے بڑوں کا ادب کرتے چھوٹوں سے شفقت کرتے انسان کے اخلاق کا زیادہ تر تعلق زبان سے ہے قرآن میں ایک جگہ اللہ تعالی نے فرمایا ؛قالو قول سدیدا؛ صاف اور سیدھی بات کرو یہ نکاح کے خطبے میں بھی ہے ہمیں پتا ہونا چاہئے کہ قولا سدیدا کون سی بات ہوتی ہے اور کس گفتگو کو قولن سدیدا کہا جاتا ہے ایسی گفتگو جس کے قول اور فعل میں تضاد نہ ہو نرمی سے بات کرنا ،حسب مراتب کا خیال رکھنا ،اچھے الفاظ کا چنا کرنا، تبصرہ کم کرنا ،اپنی رائے کسی پر مسلط نہ کرنا ،اختلاف رائے کے وقت زبان پر کنٹرول رکھنا ،ایک ٹوپیک کو ختم کرکے دوسری شروع کرنا ،قسم کھانے سے پرہیز کرنا غلطی کا اعتراف کرنا، سننے والے کی دلچسپی کو مدنظر رکھ کر بات کرنا توجہ سے بات سننے کے بعد جواب دینا ،ذاتی مسائل کا ذکر نہ کرنا اشاروں کنایوں میں بات نہ کرنا یعنی باڈی لینگویج کا کم سے کم استعمال کرنا ،چہرے کے تاثرات کو خوشگوار رکھنا،یہ سب چیزیں قولن سدیدا کے زمرے میں آتی ہیں اس لئے کہ یہ سب باتیں سچائی کی نشانی ہیں منافق کا انداز گفتگو مومن سے مختلف ہوتا ہے منافق کی جو نشانیاں بتائی گئی ہیں۔
جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے
وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے
امانت میں خیانت کرے ۔ جب جھگڑا کرے تو گالم گلوچ پر اتر آئے یعنی اختلاف رائے کے وقت حد سے گزر جائے اس میں سے تین کاتعلق انسان کی زبان سے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھے دو چیزوں کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں ایک زبان اور دوسری شرمگاہ محمد صلی اللہ علیہ سلم جب ہجرت کرکے مدینہ گے تو آپ کی بے داغ سیرت کی وجہ سے اہل مدینہ نے آپ کو اپنا رہبر اور رہنما بنا لیا گیا حالانکہ اس سے پہلے عبد اللہ بن ابی کو اپنا لیڈر بنانے والے تھے لیکن آپ کی سیرت و اخلاق کے آگے وہ مالدار شخص زیرو ہوگیا اسی طرح سے ہم غیر اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں یہاں پر ہم اسلام کے مبلغ ہیں تو ہمارے اندر کچھ ایسی قائدانہ صلاحیت ہونی چاہیے جو کہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو مالی مفادات سے بالاتر ہو ہمیں لیڈر بننے کا شوق نہ ہو ہمارے اندر عہد اور سچائی اور ایمانداری ہو اور نرم خوئی ہو اگر یہ نہ ہو تو کچھ عرصے کے بعد جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس معاشرے میں دین کے لئے کام نہیں کر سکتے اسلام کو نہیں پھیلا سکتے اس کے لئے کوشش اور دعا اور تعلق بللہ کا ہونا ضروری ہے اور یہ یاد رکھنا کہ ہم اس غیر ایمان معاشرے میں لا الہ کے وارث ہیں ۔شعوری مسلمان ہونے کا احساس اپنے اندر زندہ رکھنا ہے اس کے لئے روحانی مشقت کرنی پڑتی ہے جس طرح جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے جسمانی صحت کا خیال رکھنا پڑتا ہے اسی طرح روح کو بھی فٹنس کی ضرورت ہوتی ہے اس کی کوشش کرنی پڑتی ہے اس کی تازگی کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے روح کی صحت کے لیے سب سے پہلا سبق سچائی کا سبق ہے اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن سب کچھ ہو سکتا ہے جھوٹا نہیں ہو سکتا لہٰذا آپنے اندر سچائی کی صفت پیدا کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے اللہ سے تعلق کا مضبوط ہونا ضروری ہے قرآن میں خود اللہ تعالی نے مومنوں سے سوال کیا ہے کہ وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں لہذا قرآن کی عدالت میں اپنے آپ کو چیک کرتے رہنا چاہئے ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میرے رب نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے
کھلے اور چھپے ہر حال میں اللہ سے ڈرو
میری خاموشی غوروفکر کی خاموشی
ہو میری نگاہ عبرت کی نگاہ ہو
میری گفتگو ذکر الہی ہو
جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں جو مجھے محروم کرے میں اسے دو ں معاملہ رشتہ داری کا ہو غیر کا حق بات کہوں
غصے میں ہوں یا خوشی میں اپنے اوپر قابو رکھوں
اور نیکی کا حکم دوںاور بدی سے روکوں خود کو بھی اور دوسروں کو بھی
یہ سارے احکام پڑھنے اور سننے کی حد تک بڑے آسان ہیں لیکن جب عمل کرنا پڑتا ہے تو اس کو عمل میں لانا آسان نہیں ہوتا ہے اسی لئے اللہ نے قرآن کو قولا ثقیلا فرمایا ہے یعنی وہ بات جس کو عمل میں آتارنا مشکل ہو لیکن تعلق باللہ جتنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے ۔قرآن کے رنگ میں رنگنے کی لگن جتنی زیادہ ہوتی ہے یہ کام سہل ہوتا چلاجاتا ہے
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کی محبت کو جتنا زیادہ اپنے سامنے رکھتے ہیں تو یہ سارے کام آسان ہو تے چلے ہیں
اللہ ہمیں اپنے زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین
٭٭٭