آرمی چیف کیلئے جنرل فیض حمید کی راہ ہموار

0
323
مجیب ایس لودھی

پاکستانی فوج کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ میں کبھی بھی کوئی ایسا فوجی افسر آرمی چیف نہیں بنا جوکہ کور کمانڈر کے عہدے پر تعینات نہ رہا ہوں ، حالیہ دنوں میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو ڈجی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا کر کور کمانڈر پشاور تعینات کیا گیا تو عوام میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ جنرل فیض حمید کو اچانک دورہ افغانستان کی پاداش میں عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے حالانکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے بھی ہے کہ آرمی چیف بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ کور کمانڈر بننے کی ہوتی ہے جس کو دور کرنے کے لیے ان کو کورکمانڈر پشاور تعینات کیا گیا ہے ۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انتیس نومبر 2022 کو ریٹائرڈ ہونا ہے جبکہ دس تھری سٹار سینئر موسٹ جرنیل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ریٹائرڈ ہونے سے پہلے تیس ستمبر 2022 تک ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔اس کے بعد جو اگلے چار تھری سٹار سینئر موسٹ جنرل ہوں گے ان میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید صاحب کا چوتھا نمبر ہے، جنرل فیض حمید صاحب سے اوپر تین سینئر موسٹ جرنیلوں میں سے سب سے سینئر لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا صاحب ہیں جو ابھی ٹین کور کمانڈ کر رہے ہیں۔ ان کے بعد لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس صاحب ہیں جو فی الحال جی ایچ کیو میں چیف آف جنرل سٹاف (سی جی ایس ) ہیں، اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود صاحب ہیں جو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پریزیڈنٹ ہیں اور اس کے بعد لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید صاحب ہیںجو پہلے ڈی جی آئی ایس آئی تھے اور اب کور کمانڈر الیون کور بنا دیئے گئے ہیں۔
آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے پہلے چار سینئر موسٹ نام ہی بھیجے جاتے ہیں جن میں سے ایک کو وزیر اعظم نے آرمی چیف کیلئے منتخب کرنا ہوتا ہے۔اب لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کور کمانڈر بننے کے بعد ان کے آرمی چیف بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے گو کہ وہ سنیارٹی لسٹ میں فی الحال 14ویں نمبر پر ہیں اور اپریل 2023 میں اوپر والے دس سینئر موسٹ جرنیلوں کے جانے کے بعد وہ ٹاپ فور سینئر جرنیلوں میں سے بھی چوتھے نمبر پر ہیں۔ مگر جنرل باجوہ کی گڈ بْکس میں ہونے کی وجہ سے ، عمران خان کی نظروں میں ایک با اعتماد جنرل ہونے کی وجہ سے اور ڈی جی آئی ایس آئی رہنے کی وجہ سے وہ اگلے آرمی چیف کی سیٹ کیلئے ہاٹ فیورٹ جنرل سمجھے جا رہے ہیں۔
ایک بات واضح رہے کہ پاکستانی فوج میں آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے میں انتہائی غیر یقینیت پائی جاتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ضیاء الحق جنرل بن سکتے ہیں ، اس لیے کہ ضیاء الحق صاحب کو اوپر کے چھ سینئر موسٹ جرنیلوں کو نظر انداز کر کے ساتویں نمبر پر موجود جنرل ضیاء الحق صاحب کو بھٹو نے آرمی چیف بنایا تھا۔ جنرل مجید ملک مرحوم اپنی کتاب ‘ہم بھی وہاں موجود تھے’ میں لکھتے ہیں کہ ایسا اس وجہ سے ہوا کہ بھٹو کو لگتا تھا کہ اوپر تمام سات جنرل نا اہل ہیں یا ان کی سیاسی وابستگیاں بھٹو کی مخالف پارٹی کے ساتھ ہیںبعد میں جو کچھ بھٹو کے ساتھ ضیاء الحق نے کیا وہ سب کے سامنے ہے۔
اسی طرح جنرل مشرف کی تعیناتی نواز شریف نے کی تھی اور بعد میں جو کچھ ہوا اس سے آپ سارے لوگ واقف ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے جنرل کیانی کو تعینات کیا تھااور کہا یہ جاتا ہے کہ مشرف کو گھر بھجوانے والی وکلاء تحریک کے پیچھے خود جنرل کیانی صاحب ہی تھے۔ اس کے بعد جنرل راحیل شریف اور مزید بعد میں آنے والے جنرل باجوہ کو بھی نواز شریف نے ہی تعینات کیا تھامگر نواز شریف چونکہ خود آمرانہ مزاج رکھتے ہیں اور سب پہ غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا دونوں آرمی چیفس میں سے کسی کے ساتھ بھی ان کی نا بن سکی اور الیکشن میں دھاندلی کا الزام انہوں نے سیدھا جنرل باجوہ پہ لگا دیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ دوہزار بائیس کے بارہویں مہینے میں اوپر کے تین سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کر کے جنرل فیض حمید کو اگلا آرمی چیف بناتے ہیں یا پھر سنیارٹی کی بنیاد پر جنرل ساحر شمشاد مرزا کو بناتے ہیں اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اگلا آرمی چیف اسی طرح عمران خان حکومت کے ساتھ تعاون کرے گا یا نہیں. اگر اس سوال کا جواب نہیں میں ملتا ہے تو اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ جنرل باجوہ صاحب کو ایک ایکسٹینشن مزید دے دی جائے لیکن اگر ایسا ہوا تو شاید اس مرتبہ اس ایکسٹینشن کو فوج میں اتنا نارمل نہیں لیا جائے گا کیونکہ یہ بات اٹل ہے کہ جب بھی کسی ایک جنرل کو ایکسٹینشن ملے تو بہت سے دیگر لیفٹیننٹ جنرلز اور میجر جنرلز کا حق مارا جاتا ہے لیکن زیادہ امکانات یہی نظر آ رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے اعتماد پر پورا اترنے والے جنرل فیض حمیدکی ہی آرمی چیف کے عہدے پر تعیناتی کی جائے گی ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here