اس وقت جب ہم یہ کالم زیر تحریر لا رہے ہیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں جو حالات اور واقعات سامنے آرہے ہیں شاعر مشرق، حکیم الامت علامہ اقبال کے شعر ”آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں، محو حیرت ہو ںکہ دنیا کیا سے کیا ہو جائیگی”؟ کے سوائے ذہن کو کچھ سُوجھ نہیں رہا ہے۔ ایک جانب وطن عزیز میں روز بروز ریاستی، آئینی، عدالتی، جمہوری حوالوں سے تلخیوں اور ناچاقی کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے تو عالمی سطح پر صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات و اقدامات سے شورش کا احتمال ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ غالب کی زبان میں حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے اگر وطن عزیز کے حالات کا احاطہ کیا جائے تو ایک ہی منظر نامہ سامنے آتا ہے کہ کچھ بھی اچھا نہیں ہے، ہر شعبہ ابتری کا مظہر نظر آتا ہے اور پیش آنے والے اقدامات کسی بہتری کی نوید ہر گز نہیں ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ بھر میں سیاسی، عدالتی و انتظامی حتیٰ کہ کھیل کے ناطے جو صورتحال سامنے آئی ہے، قارئین یقیناً اس سے ذرائع ابلاغ کے توسط سے بخوبی آگاہ ہونگے۔ سیاسی تنازعات اور اپنے مفادات کیلئے خلاف آئین حرکات و اقدامات کا سلسلہ اب عدالتی تضادات تک جس طرح پہنچ چکا ہے اس کا بدترین چہرہ سوموار کے روز واضح طور پر سامنے آگیا ہے۔ ہم نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ عدالتی نظام میں نزاعی کیفیت انصاف و عدالت کی توقیر و شفافیت کیلئے نقصان دہ ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے انعقاد پر پانچ ججز کے تحفظات پر مبنی خط اور وکلاء کے رد عمل کے باوجود کمیشن کے انعقاد پر 26 ویں ترمیم پر زیر التواء ہونے کے سبب و سینئر ججز اور پی ٹی آئی ارکان کے اجلاس سے اُٹھ جانے کے باوجود چھ ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی اور تقرریوں پر جو طوفان برپا ہو رہا ہے وہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کیلئے بڑا سوال بن گیا ہے اور بینچ و بار کے درمیان وسیع خلیج کی بنیاد ثابت ہونے کا اظہار ہے۔ سونے پر سہاگہ کہ آئی ایم ایف کا مشن عدالتی و انتظامی سسٹم کے جائزے کیلئے آیا ہوا ہے اور ایسے میں ڈی چوک پر وکلاء کا احتجاج عدلیہ کے حوالے سے کیا تاثر پیش کریگا سوائے اس کے کہ یہاں نظام عدل بھی شفاف اور متفقہ نہیں ہے۔
سپریم کورٹ اور عدلیہ میں تقسیم دراصل اس سیاسی انتشار کا شاخسانہ ہے جو سیاسی و عوامی قائد عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گزشتہ تین برسوں سے جاری ہے اور کٹھ پتلی حکومت کی اطاعت سے حالیہ نظام مقتدرہ کے سربراہ کے ایجنڈے پر عمل پذیر ہے۔ ہائیبرڈ قرار دینے والے اس نظام کی وجہ سے کوئی شعبہ بھی متاثر ہونے سے نہیں بچا ہے۔ سیاست، معیشت، معاشرت کیساتھ اب کھیل میں بھی تنازل اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ عوام کا مقبول ترین کھیل کرکٹ بھی پسند نا پسند کی نظر ہو چکا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی پاکستان کی میزبانی میں چند روز دور ہے اور حالت یہ ہے کہ ابھی تک ٹیم کے انتخاب کیلئے تجربے ہی کیے جا رہے ہیں۔ ٹرائی سیریز میں پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس پیغام دے رہی ہے کہ چیمپئنز ٹرافی میں کیا حشر ہونیوالا ہے۔ نا امیدی اور بے اطمینانی کی کیفیت کسی بھی شعبہ تک محدود نہیں رہی ہے، نوبت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ عوام کے دلوں کی دھڑکن اور جمہوریت و حقیقی آزادی کیلئے چٹان بنا ہوا، قید و بند اور ہر ظلم سہنے والے عمران خان کیخلاف خود کو عمران کے حامی و وفادار بھی مصلحت اور خود غرضی کے حصار میں گھرے ہوئے نہ صرف ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے ہیں اور عمران خان کے نظرئیے و مشن کے ابلاغ کی آڑ اپنی سیاست و سہولتوں سے فیضیاب ہو رہے ہیں بلکہ بقول ریاستی ڈھول فیصل واوڈا ان کی جدوجہد اس امر کیلئے ہے کہ کپتان قیدی نمبر 804 ہی رہے تاکہ ان کی اہمیت و سیاسی حیثیت برقرار رہے۔ یہ تماشہ وطن عزیز میں ہی نہیں بیرون ملک بھی واضح نظر آتا ہے۔ شکاگو میں ہی عمران خان کی وفاداری کے نام پر تین گروپ بنے ہوئے ہیں اور ایک پیج پر ہونے کے برعکس اپنی سیاست چمکانے کے کھیل میں مصروف ہیں۔
وطن عزیز کے حوالے سے نالۂ بلبل شیدا تو آپ تک پہنچا دیا، یہاں امریکہ میں شومین اور ڈیل ماسٹر صدر ٹرمپ نے امریکہ و بیرونی دنیا میں جو انت کیا ہوا ہے اس نے دنیا بھر کو تشویش میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ ملک میں انتشار کو خوف کے ماحول کیساتھ دوسرے ممالک و اقوام کو تابع بنانے، ٹیرف کی دھمکیوں، یو ایس ایڈ پر پابندی کے ساتھ اب اسرائیل کی وسعت پذیری کے تناظر میں نیتن یاہو کے سعودی عرب میں فلسطینی ریاست کے قیام کے اعلان نے ملت اسلامیہ اور جمہوری ممالک کو احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں، محو حیرت ہوں کہ دنیا کیاسے کیا ہو جائیگی۔
٭٭٭