واشنگٹن (پاکستان نیوز) صدر ٹرمپ نے کینیڈا ، میکسیکو اور چین کی مصنوعات پر نئے ٹیکسز کے نفاذ سے تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے ، اتحادی ممالک کی جانب سے جوابی ٹیکس اور دھمکیوں کے بعد امریکہ نے ٹیکسز کے نفاذ کا فیصلہ ایک ماہ کے لیے معطل کر دیا ہے ، ٹرمپ انتظامیہ نے کینیڈا اور میکسیکو سے درآمد کی جانے والی اشیا پر 25 فیصد ٹیرف (ٹیکس) عائد کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں کینیڈا نے بھی اسی شرح سے امریکی اشیا پر ٹیکس عائد کر دیا ہے۔کینیڈا کی جانب سے جوابی کارروائی کے طور پر 106 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی امریکی مصنوعات پر 25 فیصد محصولات عائد کرنے کے اس فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر کینیڈا نے جوابی کارروائی کی تو وہ کینیڈا کی مصنوعات پر عائد ٹیرف میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ انھیں کینیڈا کے لوگ بہت پسند ہیں لیکن کینیڈا کی لیڈرشپ سے ان کے اختلافات ہیں۔دوسری جانب صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کی میکسیکو سے ‘مثبت بات چیت’ ہوئی ہے تاہم انھوں نے خبردار کیا کہ اگر میکسیکو سے امریکہ میں منشیات اور تارکینِ وطن کی آمد بند نہ ہوئی تو ٹیرف میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیکس عائد کرنے پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ‘یہ ایک طرح کی جوابی کارروائی ہے۔ میکسیکو اور کینیڈا کے ذریعے لاکھوں لوگ ہمارے ملک میں داخل ہوئے ہیں۔ اور ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔میکسیکو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ میکسیکو کی حکومت منشیات کے سمگلروں کو ‘محفوظ پناہ گاہیں’ فراہم کرتی ہے ادھر چین نے امریکہ کے خلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں مقدمہ دائر کرنے اور جوابی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔واشنگٹن میں چینی سفارتخانے نے امریکہ کی نئی ٹیرف پالیسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس ٹیرف کے خلاف ہے اور چین اب اپنے جائز دفاع کے حق اور مفادات کے تحفظ کے لیے اس اقدام کا جواب دے گا۔چین کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘تجاتی اور ٹیرف کی جنگ میں کسی کی فتح نہیں ہوتی۔’ٹیرف ایک اندورن ملک عائد کیے جانے والا ٹیکس ہے جو بیرون ممالک سے امریکہ پہنچنے والے سامان تجارت پر عائد کیا جاتا ہے۔ اور اس کا نفاذ درآمدات کی قیمت کے تناسب سے ہوتا ہے۔لہٰذا 50 ہزار ڈالر کی قیمت والی ایک گاڑی کو امریکہ درآمد کرتے ہی اس پر 25 فیصد ٹیرف کے حساب سے چارج ہو گا، یعنی ایسی گاڑی کو 12،500 ڈالر چارج کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ رقم ملک میں موجود اْس کمپنی کو ادا کرنا ہوتا ہے جو یہ سامان بیرون ممالک سے درآمد کرتی ہے نہ کہ وہ غیر ملکی کمپنی جو اس سامان کو برآمد یا ایکسپورٹ کرتی ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے، یہ ایک ڈائریکٹ ٹیکس ہے جو مقامی امریکی کمپنیوں کی جانب سے امریکی حکومت کو ادا کیا جاتا ہے۔2023 کے دوران امریکہ نے دنیا بھر سے لگ بھگ 3.1 کھرب ڈالر کی مصنوعات درآمد کیں جو امریکی جی ڈی پی کے تقریباً 11 فیصد کے مساوی ہے۔ اور ان درآمدات پر عائد محصولات کی مد میں امریکی حکومت نے اس دورانیے میں 80 ارب ڈالر کمائے، جو کل امریکی ٹیکس محصولات کا تقریبا دو فیصد ہے۔معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی طرف سے امپورٹ ٹیرف عائد ہونے اور جوابی اقدامات کے بعد گاڑیوں، لکڑی، سٹیل، خوراک، شراب اور دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔محققین کا اندازہ ہے کہ اس اقدام کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ میں واشنگ مشینوں کی قیمت میں براہ راست تقریباً 12 فیصد اضافہ ہوا اور امریکی صارفین نے واشنگ مشینوں کی خریداری پر مجموعی طور پر سالانہ تقریبا 1.5 ارب ڈالر اضافی ادا کیے۔اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ مستقبل کی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے درآمدات پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے کے نتائج واشنگ مشینوں والی مثال سے کچھ مختلف ہوں۔پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کا اندازہ ہے کہ ٹرمپ کی نئی مجوزہ محصولات سے امریکیوں کی آمدن میں کمی آئے گی۔ اس کا اندازہ ہے کہ امریکہ میں اوسط آمدن کمانے والے گھرانوں کو سالانہ 1700 ڈالر کا نقصان ہوگا۔تھنک ٹینک سینٹر فار امریکن پروگریس نے ایک مختلف طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ایک متوسط آمدنی والے خاندان کو 2500 سے 3900 ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے۔محققین نے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے محصولات کے ایک اور بڑے دور سے ملک میں افراط زر میں ایک اور اضافے کا خطرہ ہے۔اس کے باوجود ٹرمپ نے محصولات عائد کرنے کے اپنے اقدام کے لیے ایک اور معاشی جواز کا استعمال کیا ہے اور وہ یہ کہ وہ امریکہ میں نوکریوں کا تحفظ کریں گے اور مزید نوکریوں کے مواقع پیدا کریں گے۔امریکہ میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ ملک میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کی نوکریاں ختم ہو رہی ہیں اور اس کا فائدہ سستے لیبر والے ممالک کو ہو رہا ہے، خاص کر امریکہ اور میکسیکو کے درمیان 1994 کے فری ٹریڈ معاہدے (نافٹا) اور 2001 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں انٹری کے بعد سے۔ یہ ٹرمپ کی نئی محصولات کا سیاسی پس منظر بھی ہے۔جنوری 1994 میں جب نافٹا نافذ ہوا تو امریکہ میں مینوفیکچرنگ کی ملازمتوں کی تعداد ایک کروڑ 70 لاکھ تھی۔ 2016 تک یہ تعداد گھٹ کر ایک کروڑ 20 لاکھ رہ گئی تاہم ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس کمی کو تجارت سے منسوب کرنا گمراہ کن ہے۔ ان کی رائے ہے کہ اس کمی میں آٹومیشن نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔