تمام لوگ حیران ہیں کہ عمران خان سب کو دھمکا رہا ہے برا بھلا کہہ رہا ہے، قانون کو سرعام پامال کر رہا ہے آجکل نئے چیف جنرل عاصم منیر بھی انکے نشانے پر ہیں کسی عدالت کے کسی نوٹس کسی وارنٹ کی پرواہ نہیں سینکڑوں لوگوں کو ساتھ لئے پھر رہے ہیں۔انکے سکیورٹی خدشہ کی بنیاد پر انہیں اسلام آباد کی سیشن کورٹ کے بجائے جوڈیشل کمپلیکس میں انکا مقدمہ چلایا گیا جہاں ان پر فرد جرم عائد ہونا تھی تو انکے حمایتی طالبان جھتے نے وہ ہنگامہ برپا کیا کہ الامان سرکاری پولیس گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو آگ لگا دی گئی ۔وکلا کی گاڑیوں کو توڑ دیا، پولیس پر آنسو گیس پھینکی گئی ،پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس قدر پرتشدد کارروائی کسی سیاسی جماعت نے ملک کے صدر مقام اسلام آباد کے احاطہ عدالت میں پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔ اس سے پہلے محترمہ کی شہادت کے بعد سندھ میں ضرور وہ ہنگامے زیادہ تر اندرون سندھ میں ہوئے تھے لیکن وہ بھی ٹرک اور غیر سرکاری املاک تک محدود تھا ماسوائے ایک آدھ واقعات میں جہاں سرکاری املاک کو نقصان پہنچا تھا لیکن ایسا غدر کہیں نہیں ہوا۔
اخباری اطلاعات اور تصاویر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تحریک نفاذ شریعت مولانا صوفی محمد جوکہ تحریک طالبان پاکستان کی زیلی جماعت ہے۔ اس کے سابقہ ترجمان افضال خان عمران خان کے حفاظتی جتھے نام نہاد کے انچارج ہیں جو صبح صبح اپنے جتھے کو نئے دن کے پروگرام اور حکمت عملی سے آگاہ کرتے ہیں۔ پولیس پر جو آنسو گیس پھینکی گئی وہ معلوم ہوا کہ گلگت بلتستان کی پولیس جو سابقہ آئی جی بلتستان کے ساتھ آئی تھی ان سے حاصل کی گئی تھی جوکہ اسلام آباد پولیس پر برسائی گئی ،عمران خان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے ورنہ وہ جلسے اور ریلیوں میں شرکت نہیں کرتے، انہوں نے یہ بہانہ گرفتاری یا فرد جرم عائد ہونے سے بچنے کیلئے بنایا ہوا ہے۔ آخر یہ سارے مشورے یا حکمت عملی کون بناتا ہے تو کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ عمران خان کی اپنی سوچ اور ذہن کی اختراء ہے۔ لیکن جس شخص نے3/4سالہ دور حکومت میں اپنے دماغ کو استعمال نہیں کیا وہ اقتدار سے الگ ہو کر کیسے تیز سوچنے لگا ہے۔ جو شخص بارہ بجے سے پہلے اپنے دفتر نہیں آیا وہ یک لخت اتنا ایکٹو کیسے ہوگیا ہے۔ تو آئیے ایک نئی کانسپرسی تھیوری سے آپکو آگاہ کرتے ہیں۔سازشی منصوبہ کی ترکیب کہا جاسکتا ہے۔1776ء میں بیومریا جرمنی میں قانون کے ایک پروفیسر آدم ویزافٹ نے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی جسے الیموناٹی کا نام دیا گیا ہے ایک سیکیولر یا لامذہب تنظیم تھی۔ اور اس کے نام کا ترجمان روشنی یا روشن خیالی بھی ہوسکتا ہے۔ اس تنظیم نے بنیادی طور پر ذہین وفطین لوگوں کو اکٹھا کرکے اپنی تنظیم کو مضبوط کیا۔ چرچ اور حکومت نے اس تنظیم کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے دس سال کے قلیل عرصہ میں اس تنظیم پر پابندی لگا دی لیکن یہ تنظیم کبھی بھی بند نہیں ہوئی کسی نہ کسی صورت میں یہ آج تک قائم ہے۔ بعد میں اس تنظیم کی ماں قدی میسن ے اسے دوبارہ گلے لگا لیا۔ ہم جانتے ہیں فری میسن کے نام سے کافی پاکستانی بخوبی واقف ہونگے راقم جس شہر میں پلا بڑھا حیدر آباد سندھ میں کینٹونمینٹ کے علاقہ میں مین روڈ پر بھٹی بیکری جانے والی سڑک پر ایک فری میسن لاج ہوتا تھا۔ جوکہ کافی پراسرار جگہ تھی وہاں صرف ممبران کو جانے کی اجازت تھی۔ فری میسن کہنے کو تو ایجنسیرز اور بلڈرز کی جماعت تھی کہ15ویں صدی میں معرض وجود میں آئی لیکن اسے صحیح معنیٰ میں مقبولیت 18ویں صدی کی وسطہ میں امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے اپنی جوانی کے عروج پر20برس کی عمر میں فری میسن یہ1752کی بات تھی۔ اسی فری میسن کی گود سے الیمونائی کی تنظیم نے جنم لیا فرق صرف یہ تھا کہ فری میسن مذہبی رحجان رکھنے والی جماعت تھی جس میںفدامت پرست کرسچن لوگوں کی اکثریت شامل تھی یہ چرچ جانے والے لوگ تھے اور الیمیونائی لامذہب لوگ تھے۔ جن کا ایجنڈا مختلف تھا یہ دنیا کے طاقتور لوگوں کو اکٹھا کرکے دنیا پر حکومت کرنے کا شق رکھتے تھے آج کی دنیا میں کئی بڑے نام اس میں شامل ہیں جو کبھی اپنا تعلق اس تنظیم سے ظاہر نہیں کرتے کیونکہ یہ ایک خفیہ تنظیم ہے کئی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک شیطانی تنظیم ہے۔ آج کی دنیا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اس تنظیم کے ممبر ہیں جن کے اوپر چار یا پانچ مقدمات ہیں ایک مقدمہ میں تو یہ امکان ہے کہ مارچ21بروز منگل انکو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بھی اپنے کارکنوں کو کال دی ہے کہ اگر مجھے گرفتار کیا جائے تو پورے ملک میں آگ لگا دینا اور بھرپور احتجاج کرنا ایسا کہ حکومت وقت سنبھال نہ سکے۔ اسی لئے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان بھی اسی خفیہ تنظیم کے ممبر ہیں۔ ٹرمپ اور عمران عوام میں مقبولیت رکھتے ہیں۔ ان پر غیر قانونی فنڈنگ کا الزام بھی ہے خفیہ ذرائع سے انکی مالی مدد کی جاتی ہے اس لئے فنڈز انکا کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا۔ عمران خان پر البتہ ممنوعہ فنڈنگ کا کیس مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ان دونوں کے ذریعے دنیا کے نقشہ پر تبدیلی لانے کی کوشش کی جائیگی۔ ”واللہ عالم بصواب”
٭٭٭٭٭