افغانستان میں امریکی شکست کی وجہ؟

0
48
حیدر علی
حیدر علی

وقت کی مسافت کے ساتھ ساتھ خونین گرہ کا زور کمزور ہوتا جارہا ہے، وہ گرہ جسے امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے افغانستان کی سرزمین پر قتل و غارت، جبر و تشدد ، ظلم و بربریت کا بازار گرم کرکے باندھا تھا، امریکی میڈیا کا ایک ستون نیویارک ٹائمز جو کبھی اِس جارحیت کا ایک محرک تھا آج وہ خود اُس کا پردہ چاک کرنے پر مجبور ہوگیا ہے،جارحیت جو امریکی فوج اور اُس کے اتحادیوں نے افغانستان میں شروع کی تھی ایک جانب لیکن دوسری جانب طاقت اور دولت کے بل بوتے اِس ٹولے نے وہاں جو ملیشیا قائم کی تھی جو لوگوں کو اٹھاکر اِس درندگی کا نشانہ بناتے تھے، وہ ایک انسانی تاریخ کا ایسا سیاہ باب بن گیا ہے جو شاید اِس کرہ ارض پر پھر نہ دہرایا جائے،افغانستان کا ایک صوبہ قندھار جس کے دور دراز علاقے میں جہاں ریت و بجری پر چند جھونپڑیاں آباد ہیں بکتر بند گاڑیوں کے رینگنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔پولیس کے اہلکار مقامی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے لوگوں کو اکٹھا ہونے کا حکم دیتا ہے ، کیونکہ کمانڈر حاضر ہونے والا ہے،درجنوں افراد قہوے خانے کے سامنے جمع ہوجاتے ہیں،عبدالرازق جو طالبان کے خلاف جنگ میں امریکا کا ایک اہم شراکت دار ہے ، وہ اپنے ساتھ دو طالبان قیدیوں کو بھی لایا ہے تاکہ اُس کی آمد کا لوگوں پر مہلک اثر پڑ سکے، قیدی اپنے ہاتھوں کے بل چل رہے تھے ، کیونکہ اُن کا پیر بندھا ہوا تھا۔ افغانی فوج کے دوسپاہیوں نے اپنا رائفل بلند کیا اور قیدیوں پر فائرنگ شروع کردی، قیدیوں کی ہلاکت کے بعد خاموشی چھاگئی، چند ساعت بعد رازق نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ ” تم لوگ جلد ہی میری عزت کرنے پر مجبور ہوجاؤگے اور طالبان کو مسترد کردوگے، میں یہاں پھر لوٹونگا اور ایسی ہی واردات دوبارہ کرونگا. کوئی بھی مجھے اِس اقدام سے نہیں روک سکتا”سالوں سال سے اعلی امریکی فوجی افسران یہ کہتے سنے گئے کہ افغانستان کی جنگ میں رازق ایک انمول ہیرا ہے ، وہی صرف طالبان کی خلاف جنگ میں اُن کا حمایتی ہے ، اگر اُن کے سپاہی رازق جیسے نڈر جانباز ہوجائیں تو وہ یہ جنگ جیت سکتے تھے،امریکی فوجی افسران اُس کی زندگی کے آخری لمحات تک اُس کے دست راست رہے،جب رازق طالبان کے ایک خفیہ ایجنٹ کے ہاتھوں قتل ہوا تو اُس وقت بھی وہ ایک انتہائی اعلی امریکی جنرل آسٹن مِلر کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھالیکن بقول افغانی عوام کے وہ ایک امریکی مانسٹر تھا. امریکا کی 20 سالہ افغان جنگ کے دوران اُس کا ماحصل تشدد ، ماؤرائے عدالت قتل اور سینکڑوں افراد کو لاپتہ کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے.ہیومن رائٹس کے نمائندوں جنہوں نے سینکڑوں ایسے افراد کی انٹرویوز لیں جن کی اولاد ، بھائی اور شوہر رازق جو قندھار صوبے کا پولیس چیف اور سیکیورٹی کا ذمہ دار تھا اُس کے دوران لاپتہ ہوگئے تھے. یہ ظلم و تشدد کی فضا افغانی شہریوں کے خلاف امریکی حکومت کی وضع کی ہوئی تھی تاہم طالبان کا خود بھی اپنے سویلین کے خلاف ظلم و تشدد جس میں خود کش حملہ ، سیاسی قتل اور اغوا برائے تاوان شامل تھا کے مرتکب ہوئے تھے،جنرل جان ایلن نے جیسا کہ تجزیہ کیا تھا کہ یہ ایک سیاسی غلطی تھی کہ معمولی جرائم پیشہ افراد کو انتہائی درجہ کے جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کیلئے استعمال کیاجائے ،جنرل جان نے کہا کہ جب وہ 2011ء سے 2013 ء تک اتحادی فوج کی افغانستان میں نگرانی کر رہے تھے تو وہ حتی المقدور ازق سے تعاون کو محدود رکھنے کی کوشش کی تھی، رازق کی حکمت عملی بعض جگہ سود مند ثابت ہوئی تھی اور اُن لوگوں نے اُس کی حوصلہ افزائی کی تھی جو طالبان کے سخت مخالف تھے لیکن اُس کی روش کا کچھ ردعمل ظہور پذیر ہوا تھا،قندھار جو طالبان کی جائے پیدائش ہے وہاں رازق کے کئے جانے والے ظلم وتشدد کو اتحادی فوج کا ایک مثال بنایا جانے لگا، طالبان نے نوجوانوں حتی کہ نا بالغوں کو اپنی صف میں شامل کرنے کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا،افغانوں کی اکثریت امریکیوں کی حمایت یافتہ افغانی حکومت کو سخت نفرت سے دیکھنے لگی۔سقوط قندھار کے بعد وہاں اجتماعی قبروں کا ظہور پذیر ہونا ایک معمول بنا ہوا ہے، مقتول کے لواحقین جو ماضی میں ہسپتالوں کے مردہ خانہ ، ریگستانی علاقوں اور تصویروں سے شناخت کرنے میں پیش پیش تھے اب انسانی کھونپڑیوں سے اُنہیں تلاش کرنے میں مصروف ہیں،سالوں سال کی امریکی مطالبات کے باعث انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنے پر مجبور ہے، اور اب وہ امریکی حمایت یافتہ افغانی حکومت کی بدفعالی کی تحقیقات کی بجائے موجودہ افغانی حکومت کی ماؤرائے عدالت قتل اور قیدیوں پر تشدد کرنے کی کاروائی کو توجہ عدالت بنائے گا۔ٹائمز نے رازق کی خفیہ فائلز کی نا دستیابی کی بنا پر امریکی حکومت پر مقدمہ دائر کردیا ہے،تقریبا” ایک سال کی مدت کے تقاضے کے بعد اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور ملٹری انٹیلی جنس نے کچھ دستاویزات مہیا کئے ہیں. صرف چند اعلیٰ فوجی افسران یاد رفتہ کی فوجی مہم جوئی میں کسی دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور امریکی جنگی کاروائی پر نظر ثانی کرنا چاہتے ہیں. ” لوگ باغی اِس وجہ کر ہوتے ہیں کہ اُنہیں صحیح انصاف نہیں ملتا ہے.اور رازق نے انصاف کی دھجیاں اُڑا دیں تھیں،رازق نے انصاف کا جو پیمانہ رائج کیا اُس نے طالبان کے دلوں میں ہمارے خلاف نفرت پیدا کرنے کا سبب بنا تھا”امریکی جنرل ایلن نے کہا کہ سابقہ افغانی حکومت نے عبدالراق کی یادگار کیلئے قندھار کے گورنر ہاؤس کے پیچھے ایک شاندار مقبرہ بنانے کا کام شروع کر دیا تھا، لیکن شومئی قسمت کہ حکومت خود نذر مقبرہ بن گئی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here