بلاشبہ بعث پارٹی کا عراق اور شام پر غلبہ تھا جو نظریاتی طور پر مرغوب قوم پرست اور سوشلسٹ تھی جس نے صدام حسین اور حافظ اللہ اسد پیدا کئے تھے جس کے بانی ایک مسلمان صالح ال دین بطار اور ایک عیائی مائیکل اخلاق تھے جنہوں نے سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں کے سامنے بعث(پین عرب پولیٹیکل پارٹی) کی بنیاد رکھی تھی جو عراق اور شام میں سامراجی طاقتوں کے غلبہ ہٹانے میں کامیابی رہی جو بعد میں قیادتوں کی تنگ نظری کا شکار ہوگئی اور عرب قوم پرستی کا پرچار رک گیاچونکہ سامراجی طاقتوں کا کھیل تماشا ایک گھنائونا کھیل ہوتا ہے جو کبھی جہادیوں اور فسادیوں کی مدد کرتی نظر آئی ہیں اور کبھی دہشت گردی کے نام پر ملکوں پر قبضے کر لیتی ہیں جس کا مظاہرہ گزشتہ تین دہائیوں سے ہوا کہ سامراجی طاقتوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے افغانستان، عراق، لیبیا پر قبضہ کیا جس میں افغانستان سے انہی جہادیوں بعدازاں فسادیوں اور اب دہشت گردی طالبانوں سے شکست فاش دیکھنا پڑی ہے۔ آج پھر شام میں شامی باغیوں کے پیچھے ہاتھ رکھے ہوئے ہیں جنہوں نے فی الحال ایک آمر اور جابر حکمران بشاراللہ اسد کو مار بھگایا ہے جس طرح افغان ڈاکٹر مجیب اللہ کو سرعام کھبے پر لٹکا دیا تھا۔ جن کی لاش کئی دن تک کھبے پر لٹکی رہی تھی جس کے بعد افغانستان کا امن غرق ہوگیا کہ آج افغانستان میں امن وامان ہمیشہ کے لئے الوداع ہوچکا ہے ہر طرف خوف کا عالم ہے پورا ملک ملکی اور غیر ملکی پابندیوں کا شکار ہے۔ اسی طرح عراق میں صدر صدام حسین کے خلاف باغی کرد اور غدار شیعہ مولوی پیدا کئے جن کے سازشوں سے عراق پر حملہ ہوا۔ صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی وہ عراق آج تین حصوں میں بٹا ہوا ایک حصے پر کربلا کے پوجاریوں، دوسری طرف کردوں اور تیسری طرف سنی عربوں کا قبضہ ہے جس میں بغداد کے باسی یتیم بن کر رہ گئے ہیں۔ پھر لیبیا میں جو ہوا ہے سب کے سامنے ہے کہ مغربی ممالک نے بھوکے بھیڑیوں کی طرح لیبیا پر حملہ کیا۔ وہ ملک جو افریقہ یونین بنانے کا خواب دیکھ رہا تھا اسے سرعام گلی کوچوں میں مار ڈالا جس کے بعد عرب دنیا میں سامراجی طاقتوں کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا کہ آج شام میں بھی ہزار وہ ڈرامہ نظر آتا ہے مگر ایسا بھی ہوا کہ کبھی اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کو پیدا کیا تھا تاکہ پی ایل اور مذہب کے نام پر منتشر کیا جائے جو آج وہی تنظیمیں اسرائیل کے لئے وبال بن چکی ہیں شاید یہی حال شام میں ہوگا کہ آج کے باغی کل کے لئے سامراجی طاقتوں کے تباہی کا باعث بنیں گے جیسا کہ افغانستان میں ہوچکا ہے۔ تاہم شام میں مختلف مذہبی گروہ پائے جاتے ہیں جن میں آپس میں اتحاد باقی نہیں بچا ہے یہی وجوہات ہیں کہ شام کے 80فیصد سنی مسلمان تین فیصد شیعہ علوموں سے تنگ آچکے تھے جو گزشتہ پچاس سالوں سے حکمران چلے آرہے تھے جن کو فرانس نے قصداء شام پر مسلط کیا تھا جن کی حمایت دس فیصد عیسائی اور باقی گروہ کر رہے تھے کیونکہ علویوں کا نعرہ عرب قوم پرستی تھا جوکہ ایک فراڈ تھا اگر عرب ایک قوم ہوتی تو اتنے ممالک میں کیوں تقسیم ہوتی جوکہ خلافت اموی، عباسی، فاطمی اور سلطنت عثمانیہ میں تمام ملک کی بجائے صوبے تھے۔ لہذا80فیصد نشستیوں میں بے چینی پھیل چکی تھی۔ جنہوں نے2011میں بغاوت کی تھی جس میں پانچ لاکھ شامی باغی مار دیئے گئے تھے جس میں روس کی مدد حاصل تھی جس کے بعد پورے عرب میں تہلکہ مچ گیا۔ پوری عرب دنیا میں بنیاد پرست اور سخت گیر متحد ہونے لگے جنہوں نے پچاس گروہوں پر مشتمل حیات التحریر الشام نامی متحد گروہ کے نام پر علوی حکومت پر حملہ کیا جس کی بدولت چند دنوں میں شام فتح کر لیا گیا جوکہ ماضی میں بری طرح ناکام ہوئے تھے جس سے لگتا ہے کہ شاید یہ سب کچھ منصوبے کے تحت ہوا ہے جس میں مغربی دنیا موجودہ باغیوں کی تعریفیں کر رہی ہے جس کا نتیجہ آج نہیں کل نکلے گا۔ بہرحال شام ملک شام جو اشیائے اکرام کی جائے مقام ہے جو فلسطین کی طرح مقدس مقام ہے دونوں مقامات پر مسلط ہیں عیسائیوں، یہودیوں کے مشترکہ بیان کردہ انبیائے اکرام آرام گاہیں ہیں شام میں آل رسول کے شہیدوں کی خواتین بھی دفن ہیں۔ اس لیے شام کو امن کا گوارہ بنانا مذہبی، اخلاقی اور قومی فریضہ ہوگا بشرطیکہ باغی قابض گروپ جہادیوں اور طالبان کی طرح بدلوں اور انتقاموں میں مبتلا ہو کر خون کی ندیاں نہ بہادیں۔ جو شاید نظرثانی فی الحال نظر نہیں نہیں آرہا ہے کہ باغیوں کے کمانڈر محمدالجولائی نے السد کے وزیراعظم الجلالی سے کہا ہے کہ وہ آج بھی وزیراعظم ہیں جو اقتدار کو باقاعدہ قانون اور ضوابطوں کے مطابق منتقل کریں جوکہ اچھا سائن ہے مگر شام میں بغاوت کی کامیابی کے بعد اسرائیل کے گولڈن لائٹس پر دوبارہ قبضہ کرلیا ہے جس کے نتائج کا انتظار کیا جائے جس کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔
٭٭٭٭٭