اسلام آباد (پاکستان نیوز) نجکاری کمیشن بورڈ نے پاکستان ایئر لائنز( پی آئی اے) کے 51 فیصد حصص کی فروخت کیلیے ٹرانزیکشن سٹرکچر کی منظوری دے دی، وزارت نجکاری کے حکام کے مطابق نجکاری کمیشن کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں پی آئی اے کو دو حصوں میں تقسیم کرنیکی تجویز کی توثیق کی گئی، اور ٹرانزیکشن اسٹرکچر کی منظوری دی گئی ہے، جبکہ فنانشل ایڈوائزر رپورٹ تاحال نامکمل ہے اور اس میں اثاثہ جات کی ویلیو ایشن شامل نہیں ہے، اس حوالے سے نجکاری کمیشن نے کوئی پریس ریلیز بھی جاری نہیں کی، تفصیلات کے مطابق نجکاری کمیشن بورڈ کا اجلاس وزیر نجکاری فواد حسن فواد کی صدارت میں ہوا، اجلاس میں ارنسٹ اینڈ ینگ کی زیرقیادت کنسورشیم نے ٹرانزیکشن اسٹرکچر پیش کیا، جس میں پی آئی اے کے اکثر شیئر فروخت کرنے اور پی آئی اے کے اثاثہ جات اور ذمہ داریوں کو تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی تھی، تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے حکومت کثیر شیئرز غیرملکی خریدار کو نہیں فروخت کرسکتی، پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ایکٹ، ایئر سروس ایگریمنٹس ، اور نیشنل ایوی ایشن پالیسی پی آئی اے کی غیر ملکی خریداروں کو فروخت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں، تاہم، ذرائع کے مطابق بورڈ نے کم از کم 51 حصص فروخت کرنے کی منظوری دے دی، اور قانونی پیچیدگیوں کا حل یہ نکالا گیا کہ غیر ملکی خریدار کو مقامی پارٹنر کو ساتھ ملانا ہوگا، مالیاتی مشیروں نے انتظامی کنٹرول کے ساتھ شیئرز کی فروخت کی تجویز دی ہے، واضح رہے کہ نگران حکومت پی آئی اے کو فروخت کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے اور نجکاری کمیشن کو ہر طرح سے سپورٹ کر رہی ہے، لیکن پی آئی اے کے 281 ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی کا معاملہ ہنوز حل طلب ہے، جس کی وجہ سے پی آئی اے کی نجکاری پر مزید پیش رفت رکی ہوئی ہے، تاہم، بورڈ کی جانب سے منظوری دیے جانے کے بعد اب معاملہ کابینہ کی نجکاری کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، جس کی سربراہی بھی فواد حسن فواد ہی کریں گے، پھر یہ پروپوزل نگران وفاقی کابینہ کے سامنے پیش ہوگا، تاہم دوسری طرف ابھی تک ایڈوائزری رپورٹ نامکمل ہے اور اس میں پی آئی اے کے اثاثہ جات کی ویلیو ایشن نہیں کی گئی ہے، جس کیلیے جنوری کے تیسرے ہفتے کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی، ذرائع کا کہنا ہے کہ مالیاتی مشیروں نے تجویز دی ہے کہ نئے خریدار کو ایک سال بعد ملازمین کی برطرفی کا اختیار ہونا چاہیے، یہ مدت بڑھا کر تین سال کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر بنیادی اثاثہ جات اور واجبات کو ہولڈنگ کمپنی میں رکھنے کی تجویز بھی دی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی حکومت قرضوں اور سود کی ادائیگی کی ذمہ دار رہے گی، پی آئی اے کے مجموعی واجبات 825 ارب روپے ہیں، اور مالیاتی مشیروں کاکہنا ہے کہ اس کا تین چوتھائی وفاقی حکومت کو بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر منتقل کردینا چاہیے، ذرائع کا کہنا ہے کہ مالیاتی مشیروں نے 640 ارب روپے نئی ہولڈنگ کمپنی میں منتقل کرنے کی تجویز دی ہے، جس میں سے 161 ارب روپے کا وفاقی حکومت سے لیاگیا قرض اور 281 ارب روپے کا تجارتی بینکوں سے لیا گیا قرض بھی شامل ہے، جبکہ پی ایس او اور سول ایوی ایشن کے 140 ارب روپے بھی ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے، پی آئی اے کی پراپرٹیز اور فارن ہوٹلز، جیساکہ روزویلٹ ہوٹل نیو یارک اور اسکرائب ہوٹل پیرس کو بھی ہولڈنگ کمپنی میں رکھنے کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ بنیادی انجینیئرنگ سروسز اور انٹرنیشنل روٹس کور اثاثہ جات کا حصہ ہیں، جن کو فروخت کرنے کی تجویز دی گئی ہے، مشیروں نے 88 ملین ڈالر کور اثاثہ جات کی صورت میں رکھنے کی تجویز دی ہے، طیاروں کے کرایوں کی مد میں وفاقی حکومت کی جانب سے 83 ارب روپے کی ادائیگی کی تجویز بھی دی گئی ہے، سی اے اے کے 64 ارب روپے، پی ایس او کے 69 ارب روپے اور ایف بی آر کے 6 ارب روپے کے واجبات بھی حکومت کے ذمے ڈالنے کی تجویز دی گئی ہے، مالیاتی مشیروں کا کہنا ہے کہ ہولڈنگ کمپنی کا 600 ارب روپے کا قرض نجکاری سے حاصل ہونے والی رقم، ہوٹل اقور جائیداوں کی فروخت اور مستقبل کے منافع جات سے ادا کیا جائے، تاہم ان تجاویز سے وزارت خزانہ متفق نہیں ہے اور وزارت خزانہ کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔