خواجہ غریب نواز لائبریری کے منتظمِ اعلیٰ کی حیثیت میں علم و ادب کے چراغ روشن کیے ہوئے ایک درویشِ ادب ہے جسے یاسر صابری کہتے ہیں۔ آپ ایک کالم نگار، ادیب اور صحافی ہیں۔ جنوری میں اِن کے کالموں کی کتاب اندازِگفتگو شائع ہوئی تھی۔ میں ان دنوں امریکا سے پاکستان آیا ہوا تھا۔ اس کتاب میں میرا بھی ایک تفصیلی انٹرویو شامل تھا۔ یاسر صابری صاحب میرے گھر تشریف لائے اور مجھے کتاب بطورِ تحفہ مرحمت فرمائی۔ وہ اتنا مفصل اور جامع انٹرویو تھا کہ میں نے اسے اپنے شعری مجموعہ آوازِعصر کی زینت بنایا۔ آپ کا انٹرویو لینے کا انداز نہایت ادبی اور علمی ہوتا ہے۔ میں اِن کے لیے ہوئے انٹرویوز کو تحقیقی، تنقیدی اور تخلیقی ادبیات کے زمرے میں شمار کرتا ہوں۔ یہ فقط صحافتی نہیں بلکہ ادبی چاشنی سے بھر پور انٹرویو ہوتے ہیں اور یہی اِن کی خوبی ہے۔اب اِن کی انٹرویوز کی دوسری کتاب سچ بولتا ہوں شائع ہو رہی ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا!
صادق ہوں اپنے قول کا غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
آپ نے اِس کتاب میں معاصرین ادیبوں،ناول نگاروں، افسانہ نویسوں اور شاعروں کے انٹرویوز شامل کیے ہیں۔ اِن معاصرین مشاہیرِ ادب کے انٹرویوز اِس لیے بھی دلچسپ اور مفید ہیں کیونکہ یہ نئی نسل کے قلمکار ہیں اور نئی سوچ کی حامل ادبی شخصیت ہیں جو زمانے کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ شاعروں کی علاوہ کئی شاعرات کے بھی انٹرویوز شامل ہیں جن سے آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق خواتین کے جذبات اور احساسات سے آگاہی ہوتی ہے۔ یہ انٹرویوز نہ صرف اہلِ دانش و بینش کے لیے مفید ہیں بلکہ نئے واردانِ وادء شعر و ادب کے لیے بھی مشعلِ راہ ہیں۔عموما یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض پیشہ ورصحافی حکمرانوں، وزیروں ، مشیروں ، سرکاری افسروں اور اہلِ زور و زر کی کاسہ لیسی میں گردِراہ بن کر ان تک رسائی مالی مفادات کی غرض سے حاصل کرتے ہیں جبکہ یہ درویشِ ادب صرف اور صرف ادب کی خدمت میں سرگرداں رہتا ہے اور بے نیازِ زور و زر ہے۔ میں نے یاسر صابری کو بحیثیتِ انسان ایک مخلص اور عاجز شخصیت کے روپ میں پایا ہے اور یہی ایک اچھے انسان کی نشانی ہے۔ بقولِ مرزا غالب!
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اِن انٹرویوز میں کچھ معروف اہلِ قلم کے انٹرویز شامل ہیں جبکہ چند ایسے صاحبانِ دانش و بینش بھی ہیں جو علمی اور ادبی سطح پر کسی سے کم نہیں لیکن وہ پرد گمنائی میں اِس لیے پنہاں ہیں کہ وہ نہ تو طالبانِ شہرت ہیں اور نہ ہی وہ Public Relationing کے رسیا ہیں۔ بقول استاد فوق لدھیانوی مجھ کو فلک پہ آنے کی مہلت نہ مِل سکی!
گہری ہے میری سوچ، میں گہرائیوں میں ہوں
یہ یاسر صابری کا نئی نسل پر ادبی احسان ہے کہ انہوں نے معاصرین اہلِ قلم کو نئی نسل سے روشناس کرایا ہے۔ کتاب نہایت دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ مجھے امیدِ واثق ہے کہ اہلِ نظر اِس سے استفادہ کریں گے۔
٭٭٭