ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو!!!

0
35

جنوری کے بعد سے میرے کام کی نوعیت کچھ ایسی تبدیل ہوئی کہ جاب سے چھٹی لینے کا تصور ہی ختم ہو گیا۔ نہ کبھی ٹائیم شیٹ بھری اور نہ کسی وکیشن ٹائیم کا تعین ہوسکا۔ ایک مرتبہ سرجری کی وجہ سے ایک دو دن ہاسپیٹل رہا تو اس دوران بھی جاب سے کنکٹڈ رہا۔ اس عربستان کے ٹرپ کیلئے اتنے طویل عرصے کے بعد باقاعدہ چھٹی لی تو بڑا لطف آیا۔ سبق یاد کرنے کے باوجود چھٹی کا مل جانا بہت اچھا لگا۔ ورنہ مشہور تو یہ ہے کہ اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔
رہائش تو ہماری دبئی کی امارت میں ہے لیکن آج ہم شارجہ کی طرف نکل گئے تاکہ صحرا کے قدرتی ماحول میں کچھ وقت گزارا جائے۔ یہاں کی سرخ ریت (Red Sand)کے ٹیلے، اردن کی وادیِ رم سے تو مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن پھر بھی ہمیں Dunes Bashing کا کچھ مزہ لینے میں کامیابی حاصل ہو گئی۔ اونٹوں پر سواری کا بھی بہت مزہ آیا۔ لینڈ کروزر اور اونٹ، قدیم و جدید کا عجب امتزاج پیش کر رہے تھے۔اس کے ساتھ دبئی کی رعنائیاں اور ریگستان کی غربت کا تضاد بھی بہت واضح نظر آیا۔صحرا میں غروبِ آفتاب کا منظر یقینا بیحد دلکش تھا۔ اس سے پہلے کہ ہمارے میزبان صحرائی خیموں میں کچھ مصنوعی رعنائیوں کا آغاز کر پاتے، ہم نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔ ویسے ان کے گرم تندور کی سوغاتیں کافی عرصے تک یاد رہیں گی۔
سرخ ریت کے ٹیلوں کے درمیان گزرا ہوا وقت ویسے ہی بہت یادگار رہتا ہے لیکن جب آپ جیپ بھی خود ہی ڈرائیو کر کے صحرا کی تسخیر کریں تو لطف مزید دوبالا ہوجاتا ہے۔ حسنہ بیٹی نے وہاں اپنی ڈرائیونگ کے جوہر دکھا کر ہمیں تو دنگ ہی کردیا البتہ میں نے وہاں احتیاط سے ڈرائیونگ نہیں کی تاکہ بیٹی اور داماد مجھ سے شکست کھا کر رنجیدہ نہ ہو جائیں،اُمید ہے آپ اصل وجہ سمجھ ہی گئے ہونگے۔
شام کے کچھ گھنٹے گلوبل ولیج مال کی نذر ہو گئے، ہندوستان سے آئے ہوئے شاہ رخ خان کی وہاں آمد کی وجہ سے رونق کچھ زیادہ ہی تھی۔ برِ صغیر پاک و ہند کے لوگ بالی وڈ کے خانوں کے یکساں مداح نظر آتے ہیں۔ پاک و ہند کی مصنوعی گھٹن کے ماحول کی ڈائریکٹ بینیفشری عربستان کی حکومتیں لگتی ہیں۔ کھیل و تفریح کے مواقع پیدا کر کے، بہت ساری دولت کی مستحق حکومتِ دبئی بن جاتی ہے۔ گلوبل ولیج میں دنیا کے بہت سارے ممالک کے پویلینز بنے ہوئے ہیں۔ شاپنگ کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے کھانوں کی بھی بھرمار ہے۔ بس ذرہ چلنا کافی پڑتا ہے۔سید ضمیر جعفری میرے پسندیدہ شعرا میں شامل ہیں۔ ان کا یہ شعر دبئی میں کافی یاد آتا رہا۔
درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت
بہرحال دنیا کسے پسند نہیں ہے۔ خاص طور پر جب آپ دبئی جیسے سیاحتی مقام کے سیر سپاٹے میں مصروف ہوں۔ عربستان کے اس وزٹ کا تیسرا دن مکمل ہونے کو ہے اور میں ناصر کاظمی کے ایک بہت خوبصورت اور گہرے خیال والے شعر کا ستیاناس کرنے پر تل گیا ہوں کیونکہ آج ہم نے صحرا میں بہت سی خاک اڑائی ہے۔
ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here