نئی حکومت
کتنی مضبوط ہے؟
پاکستان میں الیکشن کے بعد نئی حکومت کا قیام عمل میں آ چکا ہے ، شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر وزارت اعظمیٰ کیلئے اپنی خدمات پیش کی ہیں ، شہباز شریف کی زیر قیادت پچھلی حکومت کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے اور موجودہ مخلوط حکومت کو بھی زیادہ پائیدار قرار نہیں دیا جا رہا ہے ، دوسری طرف جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں کی جنگ اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے ، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے حصے کی مخصوص نشستوں کو تمام جماعتوںمیں بانٹ دیا ہے یعنی پورے دھڑلے کے ساتھ حق تلفی کی گئی ہے جس پر پی ٹی آئی سراپا احتجاج ہے ۔ دوسری طرف قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے دوران میں اور بعد ازاں یہ سوال زیر بحث رہا کہ نئی قومی اسمبلی کس حد تک موثر ادارے کے طور پر سامنے آئے گی اور کیا عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان اسے حقیقی معنوں میں ایسا فورم بنا سکیں گے جہاں عوامی مسائل پر بات ہو اور ان کے حل کے لیے جو بھی مناسب تجویز سامنے آئے اسے منظور کیا جائے۔ فیصلے کرتے ہوئے یہ نہ دیکھا جائے کہ یہ تجویز اپوزیشن کے بنچوں سے دی گئی ہے یا اسے حکومت نے پیش کیا ہے البتہ اس پہلو کو پیش نظر رکھا جائے کہ کیا اس اقدام سے عوام کو وسیع تر بنیادوں پر فائدہ ہو گا یا ان کے مفادات پر زک لگے گی۔انتخابات کے انعقاد کے بعد ابھی تک جذبات قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران میں بھی اس کا مظاہرہ کیا گیا۔ تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان کے چہرے والے ماسک پہن کر اجلاس میں شریک ہوئے اور مخالفین کے خلاف مسلسل ‘چور چور’ کے نعرے لگاتے رہے۔ یہ طریقہ حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے تک تو قابل فہم ہو سکتا ہے کہ انتخابات میں ناکامی اور دھاندلی کی شکایات کی وجہ سے تحریک انصاف کو پریشانی لاحق ہے۔تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں قابل ذکر نمائندگی حاصل ہے۔ اس پارلیمانی طاقت کو ملک میں مثبت تبدیلی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ اسی وقت ممکن ہو گا اگر تحریک انصاف کے لیڈر یہ ادراک کرسکیں گے کہ موجودہ آئینی انتظام چلتے رہنے میں ہی سب کا فائدہ ہے۔ ان سب میں تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ لیکن اگر پارلیمنٹ میں نمائندگی کی قوت کو بدستور تخریبی سیاست کے لیے استعمال کیا گیا تو اس سے پارلیمنٹ کمزور رہے گی۔ ایک تو مسلسل ہنگامہ آرائی میں قانون سازی یا اہم معاشی فیصلے کرنے کا کام نہیں ہو سکے گا۔ دوسرے متعدد دوسرے امور میں پارلیمنٹ کردار ادا نہیں کرسکے گی۔ ایسے ہی ماحول میں غیر جمہوری قوتیں یا اسٹبلشمنٹ موثر اور طاقت ور ہوتی ہے۔عمران خان اور تحریک انصاف کے لیڈروں کو سمجھنا چاہیے کہ سیاست میں بڑی انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اگر بروقت درست سیاسی فیصلے نہ کیے جائیں تو بعد از وقت اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ یہی دیکھ لیا جائے کہ تحریک انصاف کا وفد انتخابات کے بعد دوسری مرتبہ مولانا فضل الرحمان سے ملا ہے کیوں کہ وہ کم تر پارلیمانی نمائندگی کے باوجود بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کو مولانا سے صرف ووٹ ہی نہیں مانگنے چاہئیں بلکہ سیاسی حکمت عملی کا سبق بھی سیکھنا چاہیے۔فی الوقت اگرچہ یہ لگ رہا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارکردگی کا انحصار تحریک انصاف کے رویہ پر ہو گا۔ لیکن اگر پی ٹی آئی نے مسلسل منفی سیاست کی اور آئی ایم ایف کو خط لکھنے جیسی غلطیاں دہرائی جاتی رہیں تو پارلیمنٹ میں موجودگی کے باوجود اس کی اہمیت کم ہو جائے گی۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ منتخب ہونے والی حکومت درست اقدامات کر کے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ یوں بھی تحریک انصاف ایک بڑی پارٹی ہے، اسے جماعت اسلامی کی طرح اس بچگانہ تصور سے باہر نکلنا چاہیے کہ فوری طور سے ملک میں نئے انتخابات منعقد ہوسکتے ہیں۔ اس کی بجائے سب سیاسی قوتوں کو مل کر کوشش کرنی چاہیے کہ موجودہ پارلیمنٹ اور منتخب ہونے والی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے اور ملک کو موجودہ بے یقینی اور بحران سے باہر نکال سکے۔پاکستان کے سیاسی پنڈتوں نے موجودہ حکومت کی عمر کو بہت قلیل قرار دیا ہے جس کی وجہ مولانا فضل الرحمن کے اپوزیشن میں شامل ہونے کو قرار دیا جار ہا ہے جوکہ عمران خان کی حکومت کو گھر بھجوانے میں کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں ، اور اس مرتبہ اتحادی حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں ، اگر پی ٹی آئی، فضل الرحمن اور ایم کیو ایم ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جاتے ہیں تو موجودہ حکومت کے جلد گھر واپسی کے امکانات نمایاں ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ، اب دیکھنا ہے کہ زرداری اور میاں کا گٹھ جوڑ حکومت کی بنیاد کو کتنی دیر تک قائم رکھ سکتا ہے ۔
٭٭٭