وہ پاکستانی جن کی تاریخ 712 سے شروع ہوتی ہے جب ایک عرب جنگجو کے آنے پر سندھ باب الاسلام بنا تھا، وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ عرب دنیا میں عرب بہار کے پیچھے کیا چیز چل رہی ہے۔ سادہ لفظوں میں سمجھ لیجیے کہ اِس سوغات کا نام عرب نیشنلزم ہے جو خدا کے فضل و کرم سے پچھلی ایک صدی سے متحرک ہوا ہوا ہے اور اب عرب بہار اِسے بال و پر دے رہی ہے۔عرب کلچر کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے جب کہ اسلام کی عمر محض ڈیڑھ ہزار سال ہے۔ آج کا عرب نوجوان اِس بات پر سخت جزبز ہے کہ عرب کو صرف اسلام کے تاریخی پس منظر میں دیکھنے سے اسے اپنی قیمتی اور بھرپور ثقافت و تاریخ سے محروم کیا جا رہا ہے۔ آج کا عرب نوجوان الحاد کو پسند اور اسلام کے خلاف کھل کر اِس لیے بھی بول رہا ہے کہ وہ اپنی قدیم تر تہذیبی شناخت اور عرب ثقافت کو اسلام کی وجہ سے خطرے میں محسوس کر رہا ہے۔ عرب نوجوان کھلے عام کہہ رہا ہے کہ اسلام کی وجہ سے عرب تہذیب عالمی برادری کا پخ بن کر رہ گئی ہے۔ خود کو صرف مقدس بت سمجھنا اب عرب نوجوان کے لیے ممکن نہیں رہا۔آج کل ٹاک شوز میں عرب نوجوانوں کی زبانوں سے ایک اور اہم بات یہ سنی جا رہی ہے کہ سعودیہ نے مسلم دنیا کا چودھری بننے کی آڑ میں عرب ثقافت و تاریخ کا سب سے زیادہ نقصان کیا ہے۔ آئندہ چند برس بعد جب پاکستانیوں کے نزدیک یکم نومبر 2022 کو سلطنتِ عثمانیہ کے اختتام کی صد سالہ برسی ہوگی تو عرب نوجوان اِس دن کو عرب نیشنلزم کے جھنڈے تلے ہاشمیوں کی قیادت میں عثمانیوں سے آزادی کے صد سالہ جشن کے طور پر منائیں گے اگر سعودیہ نے اِس سے پہلے پہلے اپنی خالص اسلامی چودھراہٹ کو چھوڑ کر لبرلزم کو ریاستی پالیسی نہ بنایا تو آئندہ عرب دنیا میں اس کا وجود بھی باقی نہیں رہے گا۔پاکستانیوں کے لیے عرب اور لبرلزم قریب قریب اسلام اور کفر کے مترادف ہیں لیکن عرب دنیا میں لبرل اور سیکولر تبدیلی اب نوشت دیوار ہے۔ آج کا عرب نوجوان جب ٹاک شو میں ایک عرب شیخ الاسلام سے پوچھتا ہے کہ اٹلی میں پوپواڑے کے پاس مسجد کیوں موجود ہے اور مکہ میں مسجد الحرام کے قریب کلیسا بنانے کی اجازت کیوں نہیں ہے تو اسے اِس سوال کا جواب نہیں ملتا اور اسلام کی رواداری ایک کتابی بات سے زیادہ کچھ محسوس نہیں ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب سعودیہ اپنی بنیادی پہچان یعنی مکہ و مدینہ کے زائرین کے استقبال و قیام سے بہت جلد جان چھڑائے گا اور اپنے ہاں مذہبی تکثیریت کے لیے انقلابی اقدامات کرنے پر مجبور ہوگا۔ ایسے اقدامات باقی تمام عرب دنیا میں بھی ہوں گے۔آج کے عرب نوجوان کے آئیڈیل اب وہ عرب ہیں جو عرب قوم میں سے مذہب کا عنصر نکال کر اس میں ثقافتی و تہذیبی اور جغرافیائی عناصر شامل کرنے کے لیے یکسو ہوں اور اپنا تعلق میسوپوٹیمین یا بابلی تہذیب سے جوڑتے ہوں۔ یہ صورتِ حال پاکستانیوں کے لیے اتنی پریشان کن نہیں ہے جتنی عرب ممالک کے لیے ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ہمارے نزدیک عرب کا مطلب صرف اسلام ہے۔رہے ہم پاکستانی، تو ہم عربوں کے جبوں سے لٹک لٹک کر اسلامی دنیا اور اسلامی بلاک کی دہائیاں دینے کے سوا کچھ کرنے کے لائق ہی نہیں ہیں۔ عربوں میں عرب نیشنلزم کے فروغ کے نتیجے میں شناخت کا جو بحران پاکستانی مسلمانوں پر آنے والا ہے اس کا محض تصور ہی ہولائے دیتا ہے۔ خاکم بدہن شاید ریڈ انڈینز جیسی تاریخ ہمارا مستقبل ہو۔دیکھیں عرب دنیا میں عرب بہار اپنا یہ اثر کب دکھاتی ہے۔ بہار آتی ہے تو ہر سمت پھول سبزہ کھل اٹھتا ہے۔
(٭٭٭