خط بازی کا سلسلہ حسب ونسب !!!

0
63
رمضان رانا
رمضان رانا

آج کل عمران خان کے یکے بعد دیگرے خط بازی کا چرچا عروج پر ہے کہ جس میں وہ اب تک تین عدد خط آرمی چیف اور ایک خط چیف جسٹس کو لکھ چکے ہیں جن کے تحریر شدہ خطوط میں شکایات کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو انہیں گزشتہ40سالوں تک میسر تھیں کہ جب انہیں جنرل ضیاء الحق نے تاحیات کرکٹ کا پاکستان بنایا۔ جنرل گل حمید نے بطور ہیرو کرکٹ عوام میں پیش کیا۔ جنرل مشرف نے گود لیا، جنرل پاشا، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ، جنرل ظہیرالسلام اور جنرل فیض حمید نے دن رات پرورش اور تربیت کی ہو تو وہ ایک اکیلی اولاد کی طرح جنرلوں اور ججوں کے ساتھ کھیلتا کودتا رہا جن کے مرضی کے مطابق سیاستدانوں کو جیلوں میں ٹھونس دیاگیا وہ آج خط لکھ لکھ کر اپنے ماضی کو یاد کر رہے ہیں۔ مزید برآں عمران خان نے آئی ایم ایف کو خط لکھ کر منع کیا کہ پاکستان کو قرضے مت دیں۔ صدر ٹرمپ کو خط لکھا کہ پاکستانی حکومت کو تسلیم مت کریں عمران خان نے امریکہ کیخلاف ایک خط کو لہرایا تو اس کی حمایت میں امریکی کانگریس میں واویلا ہوا کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہر دلعزیز پاکستانی حکمران کو امریکہ کے اشارے پر ہٹایا جائے جس کے بعد کانگریس میں عمران خان کی حمایت میں قرار دادوں کا انبار لگ گیا ہے وہ بے شک طالبان اور اسامہ بن لادن کا حامی ہے۔ مگر وہ ہمیں چاہئے جو پاکستان میں دہشت گردوں کے ساتھ مل کر انتشار اور خلفشار پھیلائے تاکہ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت دوسرے مسلم ممالک کی طرح بے بس اور لاچار ہوجائے تاہم ماضی میں شیخ مجیب نے جنرل یحیٰی خان کو خط لکھ کر چھ نکات پیش کیئے کہ صوبوں کو خودمختاری دی جائے جس پر بڑا شوروغل مچا جس ایجنڈے پر وہ بنگال میں کافی طور پر الیکشن جیت گیا جن کو اقتدار سے محروم کرکے ملک دولخت کر لیا گیا ،بھٹو شہید نے ایک امریکی خط لہرایا تھا کہ سفید ہاتھی مجھے ملانا چاہتا ہے جس کے بعد انہیں سفید ہاتھی نے اپنے پائوں تلے کچل دیا۔ اصغر خان نے بھی ایک جنرلوں کو خلط لکھا تھا جس کے بعد جنرل ضیاء الحق کا ٹولہ جنرلوں کا ٹولہ بھٹو حکومت پر قابض ہوگیا جنہوں نے بھٹو کو سولی پر چڑھا دیا۔ پاکستان کو امریکی پرائی جنگ میں دھکیل دیا جس نے آج ہمیں پاکستان میں نتائج نظر آرہے ہیں کہ پاکستان پر دہشت گردی کا ٹائٹل ختم نہیں ہورہا ہے جس طاقت نے دہشت گردی پیدا کی تھی وہ بھی پاکستان کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ خط بازی پر ایک اور واقعہ یاد آگیا کہ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے بھی سابقہ چیف جسٹس فائز قاضی کو خط لکھ دیا کہ ہمیں آج کے جنرل تنگ کر رہے ہیں جبکہ یہی جج صاحبان دو رفیضیت میں خاموش رہے جب جنرل فیض حمید کے حکم پر عدالتی فیصلے لکھے جارہے تھے جن کی جسٹس شوکت صدیقی نے مخالفت کی تھی تو انہیں جنرل فیض حمید کے حکم پر چیف جسٹس ثاقب نثار عرف بابا رحمتے نے برطرف کردیا تھا جن کو چیف جسٹس قاضی نے بحال کیا ہے جس کے یہ پانچ کا ٹولہ ججوں کا خاموش تماشائی بنا رہا جو آج جنرلوں کی شکایات کر رہے ہیں کہ ہمیں بھی جنرل چھیڑ رہے ہیں اگر خدانحواستہ آج جنرل عاصم منیر آئین توڑ کر ملک پر قابض ہوجائے تو یہ پانچوں جج سب سے پہلے جنرل کے قانون کے تحت حلف اٹھائیں گے۔ بہرحال موجودہ خط بازی سے ماضی کی طرح کوئی قومی سانحہ برپا ہوسکتا ہے خط ایک بہانہ ہے دراصل جنرلوں کو واپس لانا ہے۔ جس سے جنرلوں اور ججوں کو دعوت اقتدار کی دعوت مل رہی ہے کہ وہ کب کس وقت اقتدار پر قابض ہوجائیں جواب بنگلہ دیش والے فارمولے پر کام کریں جس میں جنرلوں کے ساتھ ساتھ جج صاحبان بھی شریک ہوگئے۔ جن کے مشیر اور وزیر جرنلسٹ ہونگے حالانکہ خط بازی پاکستان کی حکومت سے کرنا چاہئے جس میں وزیراعظم یا صدر کو خط لکھ کر اپنی شکایات کی جاسکتی ہیں مگر خط بازی کا سلسلہ جنرلوں اور ججوں کے ایوانوں میں کیا جارہا ہے جس کا نقصان پاکستان کی چھوٹی موٹی لنگڑی لولی جمہوریت کو پہنچ سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here