محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے ،کل آن لائن ایک خبر پڑھی جو ایک انتہائی پریشان حال بیٹی بہن ،ماں سے متعلق تھی ،ایک مشہور وکیل صاحب کے آفس میں وہ خاتون آتی ہے اسکے ساتھ تین پھول جیسی بچیاں ہوتی ہیں ،اس کا مطالبہ ہوتا ہے بچیوں کے باپ نے لڑکیاں پیدا ہونے اور لڑکا نہ ہونے کی وجہ سے اس سے قطع تعلق کرلیا ہے ،وہ بچیوں سے نہ ملتا ہے نہ انکی کوئی خیر خبر لیتا ہے نہ ہی انکا کوئی خرچہ دیتا ہے، میرا دل لرز گیا ،یہ سن کر کیسے لوگ شادی کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتے پھرتے ہیں کیو نکہ وہ اپنی خود کی کمزوری یا جسکے وہ ذمہ دار ہیںاسکو نہیں قبولتے، کیوں وہ اپنی ہی اولاد پر ترس نہیں کھاتے ،کسی کی بیٹی کو بیاہ کر لائے ،اس پر کوئی رحم نہیں ،اس پر کوئی ترس نہیں، کوئی پرسان حال نہیں، آخر کیا وجہ ہے؟ یہ لوگ شقی القلب ہیں اور اپنے ضمیر کے مجرم ہیں ،ان کے ماں باپ اس سارے قصے میں برابر کے قصور وار ہیں، وہ کیوں اپنے بچوں کو تربیت نہیں دیتے ،ان کو نہیں سمجھاتے کہ کسی کی اولاد کو عورت زات کو ایسے تنہا معاشرے کے ہاتھوں نہیں چھوڑ دیتے حوا کی بیٹی حق مانگنے عدالتوں کے چکر وکیلوں کے دفتر جاتی ہے اور فریاد کرتی ہے ،یہ فریاد شاید اس سے قبل اوپر پہنچ جاتی ہے پھر جو کچھ ہوتا ہے اس کے انجام کو انسان سوچ لے تو کبھی ایسی بے رخی اپنی اولاد سے نہ کرے، کبھی اپنی بیٹیوں کو ایسے بے یار ومددگار نہ چھوڑے، بیٹیاں تو باپ سے محبت کرتی ہیں ،یہ تو ننھی تتلیاں اُن کا کیا قصور ،انکو دنیا میں آپ لائے نکاح کرکے لڑکا یا لڑکی ہونے میں مرد قصور وار ہے ،اس کا بویا بیج جو بویا وہی نکلے گا کیوں نہیں قبولتا اور بیٹی پیدا ہونے پر ایسی سزا اس عورت کو جسے آپ دنیا کو گواہ بناکر بیاہ کر گھر لائے، اللہ نے اس عورت کی وجہ سے آپکے رزق میں برکت رکھی آپکو مواقع دیئے کہ آپ آگے بڑھ سکو اور اس برکت کو آپ خود ختم کرنے کے درپے ہو، عجیب لوگ ہیں اور عجیب مرد ہیں ایک سوال اب قارئین سے سخت ہے لیکن سوال ہے ،بیٹے اثاثہ نہیں ہوتے!یا ہوتے ہیں ؟ ہمارے معاشرے میں جب بیٹے پیدا ہوتے ہیں تو ماوں کی آنکھوں میں ایک خاص چمک اُترتی ہے۔ وہ دعائیں کرتی ہیں، نذریں دیتی ہیں، خوشیاں مناتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے قدموں سے لے کر پہلی بار بولنے تک، ماں کے دل میں یہ احساس پروان چڑھتا ہے کہ یہ بیٹا ہی تو اس کا سہارا ہے، اس کا فخر ہے۔ بچپن میں بیٹے اپنی ماوں کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں، ان کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، بات کرنا سب ماں کی تقلید میں ہوتا ہے۔ ماں کا دامن ان کے لیے گویا ایک دنیا کا نقشہ ہوتا ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کہانی کا رنگ بدلنے لگتا ہے۔ اکثر ماوں کے رویے میں ایک ایسا غرور اتر آتا ہے جیسے انہوں نے کوئی کٹھ پتلی اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہو، جو ان کے اشاروں پر ناچ رہی ہو۔ بیٹے بڑے ہوتے ہیں، دنیاوی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تلخ حقیقتوں سے آشنا ہوتے ہیں، مگر ماں کا وہ نرم دامن، وہ پلو جسے تھام کر سب کچھ سیکھا تھا، آہستہ آہستہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ بیٹے اپنے احساسات نہیں جتاتے کیونکہ اس معاشرے نے ان پر مردانگی کا ایک لیبل لگا دیا ہے۔ کمزوری ظاہر کرنا گویا مردانگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اندر ہی اندر وہ بدل رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی تبدیلی کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب اس بیٹے کی زندگی میں ایک اور عورت آتی ہے اس کی بیوی، جسے اللہ تعالی نے اس کا سکون بنایا ہوتا ہے۔ بیٹا سوچتا ہے کہ وہ زندگی کی تلخیوں سے نبرد آزما ہو کر جب اس رشتے میں آئے گا تو اپنے بوجھ کو ہلکا کر پائے گا، مگر یہ بھی ایک نئی جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک جنگ جو ملکیت کی جنگ بن جاتی ہے ایک طرف ماں ہے، دوسری طرف ہمسفر۔ اب وہ بیٹا بیک وقت دو محاذوں پر لڑ رہا ہوتا ہے؛ ذمہ داریوں کی جنگ اور ملکیت کی جنگ۔ ماں چاہتی ہے کہ بیٹا ہمیشہ اس کے تابع رہے، بیوی چاہتی ہے کہ شوہر اس کا ہو، اور درمیان میں وہ بیٹا جسے دونوں کے درمیان بٹ کر بھی اپنی مردانگی قائم رکھنی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ بیٹے نہ اثاثہ ہوتے ہیں، نہ ملکیت۔ وہ انسان ہوتے ہیں، احساسات کے ساتھ، کمزوریوں کے ساتھ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں محض سہارا یا سرمایہ سمجھنے کے بجائے انہیں بھی اپنی زندگی اور سانس لینے کی جگہ دیں۔ ماوں کو یہ ماننا ہوگا کہ بیٹے ان کے مان ضرور ہیں، مگر ان کی ملکیت نہیں۔ اور بیویوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ شوہر ان کے ساتھ ہیں، ان کے ماتحت نہیں۔ بیٹے کسی کے اثاثے یا ملکیت نہیں، وہ ایک مکمل انسان ہیں۔ اگر ہم انہیں محبت، اعتماد اور آزادی کے ساتھ جینے دیں تو وہ نہ صرف خاندان کا سہارا بنتے ہیں بلکہ معاشرے کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ بیٹوں کو سہارا سمجھنا درست ہے مگر انہیں ملکیت سمجھنا سب سے بڑی ناانصافی ہے! کاش میری آج کی بحث رنگ لائی کوء اپنی زندگی بدل سکے اور حوا کی بیٹی کو ایسے زلیل نہ کرے اس کو ایسے بے آسرا نہ چھوڑے اور جس وعدے پر وہ نکاح کررہا ہے اس پر قائم رہے وعدے سے مراد وہ ان کہی باتیں اور بنا تحریر باتیں جو نکاح کے فرائض سے جڑی ہیں ان کو پورا کرنا مرد(شوہر)کا فرض ہے، میری دعا ہے ہر بیٹی سکھی رہے، ہر گھر شاد و آباد رہے اور ہر گھر میں خوشیاں ہوں، بیٹیاں وہاں رونق لگا کر رکھیں، باپ انکے ناز اُٹھائیں ،اُن کی دعائیں لیں، اُن کے وجد کی جو برکتیں ہیں اس سے مستفید ہوسکیں ،ایسا جب ہی ہوگا جب ایک بیٹی کا باپ اپنی ذمہ داری اُٹھائے گا ورنہ زمانہ جاہلیت کے عربوں میں اور آج کے اُمتی میں کوئی فرق نہ ہوگا وہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے آج ایسا بے آسرا چھوڑ کر بیٹیوں کو ہر روز زندہ درگور کررہے ہیں ،اس قسم کے اللہ پاک ان سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔آمین !
٭٭٭











