قوم مسیحا کی تلاش میں!!!

0
68
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں ٹرمپ کے مسلم رہنمائوں کیساتھ مجوزہ معاہدے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا تھاکہ صیہونیت و رہبانیت کیلئے مسلم طاقتوں کا اتحاد پریشان کُن ہوتا ہے اور کوئی بھی موقع ہو یا صورتحال ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ مسلم اُمہ میں بہر صورت انتشار و افتراق جاری رہے، قارئین کے علم میں اب یہ سچائی سامنے آچکی ہے کہ جس معاہدے کے مندرجات پر مسلم رہنمائوں کو آگاہی دی گئی تھی نیتن یاہو سے ملاقات اور قطر سے اس کی معذرت کے بعد جو 20 نکاتی معاہدہ سامنے آیا وہ سرا سر نیتن یاہو اور اسرائیل کے مفاد میں ہی واضح رہا۔ صدر ٹرمپ کی دھونس دھمکیوں کے ناطے معاہدے پر شرم الشیخ میں مذاکرات شروع تو ہو گئے مگر نہ صرف مظلوم فلسطینیوں پر بمباری جاری رہی بلکہ فوٹیلا کے امدادی افراد بھی اسرائیلی مظالم کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔ اب مذاکرات کے حوالے سے جو تفصیلات سامنے آرہی ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرایئل مغویوں اور لاشوں کی واپسی کے علاوہ کسی دوسرے ایشو مثلاً اسرائیلی افواج کی غزہ سے واپسی، غزہ و فلسطینیوں کی بقاء و تعمیر کے حوالے سے کوئی تعین نہیں ہے نہ ہی مسلم یا نیوٹرل افواج کی نامزدگی اور کنٹرول پر کوئی وضاحت ہے۔
یہ حقیقت تو اب بالکل واضح ہو چکی ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے لئے نوبل امن ایوارڈ کے حصول کی جدوجہد ہے۔ امن و محاذ آرائی رکوانے کیلئے سرگرداں ہیں اور بالخصوص روس و یوکرین جنگ بندی کی کوششوں میں ناکامی کے بعد اس کا واحد ہدف غزہ میں امن کا قیام ہے مگر یہ ہدف محض اس وقت تک کیلئے ہے جب تک اسے ایوارڈ کیلئے نامزد نہ کر دیا جائے، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل کا وجود اور دو ریاستی نظرئیے سے اغماض امریکی انتظامیہ کا مشن ہے ان حالات میں فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام اور فلسطینیوں کو حق خود ارادیت کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔ حماس کو فلسطین کی آزادی کیلئے واحد ذریعہ قرار دیا جاتا ہے لیکن مسلم ریاستوں اور حکمرانوں میں سوائے ایران کے بالخصوص عرب ممالک و مشرق وسطیٰ میں سب ہی بالواسطہ یا بلا واسطہ امریکی محکومی کے حصار میں ہیں تو ان کی کیا مجال کہ وہ امریکہ کے مفادات کیخلاف کھڑے ہو سکیں۔ ٹرمپ کے مسلم حکمرانوں سے مجوزہ معاہدے میں جو کھیل کھیلا گیا اسے ہمارے حساب سے دایاں دکھا کر بایاں مکا بتایا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب، ترکی، قطر کی بات تو چھوڑیں پاکستان کے وزیراعظم نے تو پہلے معاہدے کے ڈرافٹ پر صدر ٹرمپ کو مبارکباد کا ٹوئیٹ بھیج دیا تھا، 20 نکاتی تبدیل شدہ معاہدے کے بعد نائب وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کے سامنے مذمتیں اور وضاحتیں کرنی پڑیں۔ اس حماقت کی وجہ صدر ٹرمپ سے ملاقاتیں اور اس کی جعلی محبت تھی، کسی دوسرے مسلم رہنماء نے تو مبارکباد بھی نہیں دی تھی۔
حماقتوں، حکومتی غرور اور جھگڑوں کا سلسلہ تو وطن عزیز میں بھی ختم ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ ریاست اور ملک کی سب سے مقبول پارٹی میں نزاعی کیفیت، بیساکھیوں پر قائم حکومتی شراکت داروں کے درمیان جھگڑا، مختلف اداروں کے درمیان چپقلش کیساتھ خود جماعت کے اندر تقسیم در تقسیم روز کا معمول ہو چکا ہے۔ ایک جانب بھارت کے سیاسی و عسکری ذمہ داران اپنی بدترین ذلت و ناکامی کے زخم بھرنے کیلئے، بدلہ لینے کیلئے جنگ کے دعوئوں سے کھیلوں کے میدانوں تک دشمنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب دہشتگردی کے سبب روزانہ وطن کے پاسبان بیٹوں او رمعصوم عوام کی شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ اور حکومتی کار پردازوں کو اپنی ذات کے تسلسل اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے جھگڑوں سے ہی فرصت نہیں، اس کے برعکس اس بات پر بحث و تکرار ہے کہ دہشتگردی کی آڑ میں معصوم شہریوں کیخلاف ایکشن لیا جا رہا ہے یانہیں، صوبہ پنجاب اور سندھ کے درمیان سیلاب زدگان کی اعانت و بحالی کے ایشو اور انگلی اٹھانے پر انگلی توڑ دوں گی، میرا پانی، میرا صوبہ جیسی زبان درازی سے اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اتحادی حکومت ٹوٹ جانے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن ہمارے خیال سے ایسا ہوگا نہیں کیونکہ یہ حکومت ڈنڈے کے زور پر اور عوام کے ووٹ کے برعکس ملک کی مقبول ترین جماعت کو محروم کر کے بنائی گئی ہے اور ڈنڈے کے زور پر ہی چلتی رہے گی جب تک مقتدرہ کے اہداف پورے نہیں ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں جب عالمی منظر نامہ خصوصاً فلسطین کے حوالے سے اور بھارت کے اپنی بدترین شکست کے بعد سندور کے تناظر میں پاکستان کیخلاف دھمکیوں اور حملوں کے اعلانات کی صورت میں وطن عزیز کی سالمیت و یکجہتی کیلئے کیا خطرات درپیش نہیں ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے ارباب حل و عقد اور اختیار کو یہ احساس نہیں کہ ملک کی سالمیت، خوشحالی اور عوام کی بہبود کیلئے قوم کا اتحاد ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو تو اقتدار، اختیار اور اعتبار سب مٹی میں مل جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وطن عزیز کا ہر شعبہ انحطاط سے دوچار ہے، غیر ملکی کاروباری اداروں کی مراجعت اس کا بڑا ثبوت ہے۔ حالات کی بہتری کیلئے قوم کس مسیحا کو تلاش کرے اب تو عدالتیں اور پریس کلب بھی محفوظ نہیں ہیں۔ احمد فراز نے کہا تھا!
کونسا نام تجھے دوں میرے ظالم محبوب
تو ہی قاتل ہے مرا تو ہی مسیحا میرا
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here