آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے چولستان میں ایس آئی ایف سی کے گرین کارپوریٹ انیشی ایٹو کے دورہ کے دوران کہا ہے کہ فوج ملک کی معاشی ترقی کے لئے حمایت جاری رکھے گی۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب پاکستان کا زرعی پاور ہاوس بن گیا ہے، جدید زراعت میں صوبہ پنجاب اور یہاں کے کسانوں کا قائدانہ کردار قابل تحسین ہے، گرین کارپوریٹ منصوبے کے تحت مختصر وقت میں کامیابیاں حوصلہ افزا اور ترقی کی نوید ہیں، پاک فوج ملک کی معاشی ترقی کے عمل میں بھرپور حمایت جاری رکھے گی۔ گرین پاکستان منصوبہ ملک میں کسانوں کو درپیش مشکلات کے خاتمہ کی ایک کوشش بتائی جا رہی ہے۔گرین پاکستان منصوبے کے تحت کسانوں کو مہنگی مشینری خریدنے کی بجائے آسان کرائے پر آلات حاصل کرنے کے مواقع میسرہوں گے، جدید آبپاشی کے نظام کے لیے پنجاب بھر میں 25 “گرین ایگری مال” تیار کیے گئے ہیں، سال کے اختتام تک ملک بھر میں 250 “گرین ایگری مال” کی تکمیل متوقع ہے۔منصوبے کے تحت پانچ ہزار ایکڑ پر مشتمل جدید زرعی فارم کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے ۔گرین ایگری مال اینڈ سروس کمپنی کسانوں کو ان کے گھر کی دہلیز پر معیاری بیج، کھاد و کیڑے مار ادویات رعایتی قیمت پر فراہم کرے گی۔کسانوں کے لئے ڈرونز سمیت زرعی مشینری رعایتی کرائے پر دستیاب ہو گی۔ افتتاح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے کہا کہ چولستان اورپنجاب میں زرعی انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے،یہ کسانوں کی ترقی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہے، زراعت کی ترقی کسان کی ترقی اور پاکستان کی خوش حالی کی ضمانت ہے۔زرعی شعبہ پاکستان کی معیشت مین سب سے زیادہ حصہ رکھتا ہے۔پارلیمنٹ میں اکثریتی تعداد زراعت پیشہ اراکین کی ہے اس کے باوجود زرعی شعبے کے لیے پچھلا مالی سال بہت برا تھا۔رواں سال بھی کاٹن کی پیداوار میں چونسٹھ فی صد کمی دیکھی جا رہی ہے،پچھلے سال آم کی ساٹھ فی صد فصل موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ضائع ہو گئی۔اس سال کنو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کم پیدا ہوا۔ کسانوں کو زرعی اجناس کا معقول معاوضہ نہیں مل سکا۔گزشتہ برس کسان گندم کی فصل اگا کر نقصان اٹھانے کے بعد اس سال دوسری فصلیں کاشت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں رواں سال دس سے پندرہ فی صد گندم کم پیدا ہونے کا امکان ہے ۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے کاشتکار مناسب مقدار میں کھادوں اور ادویات کا استعمال نہیں کر پا رہے۔ وہ مہنگا معیاری بیج استعمال کرنے کی بجائے گھر میں پڑا بیج ہی استعمال کر رہے ہیں، جس سے مختلف فصلوں کی پیداوار مزید کم ہو گی۔اندیشہ ہے کہ پاکستان کو بیرون ملک سے مہنگی گندم منگوانا پڑے گی۔ پاکستان کے کاشتکار پہلے ہی پانی کی قلت، جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کی کمی، موثر حکومتی زرعی پالیسیوں کے فقدان اور مناسب تحقیق کے نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ زرعی ادویات کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں جبکہ زرعی اجناس کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ جب سیزن قریب آتا ہے تو ڈی اے پی اور دوسری زرعی اشیا بلیک ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔کئی مرتبہ ان کی کوالٹی بھی بہتر نہیں ہوتی۔ حکومتیں ان مافیاز پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔کسانوں کو شکایت ہے کہ تین سال پہلے تک تو انہیں آٹھ روپے پینتیس پیسے میں بجلی کا یونٹ ملتا تھا لیکن اب کسانوں کے لئے بجلی کے یونٹ کی قیمت ساٹھ روپے فی یونٹ تک پہنچ چکی ہے۔کسان حکومتی پروگراموں کا موازنہ بھارت کے کسان کو حاصل سہولیات کے ساتھ کرتے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں کسانوں کو آٹھ گھنٹے تک بجلی مفت ملتی ہے۔ بھارت میں یوریا بیگ کی قیمت پاکستانی کرنسی میں ایک ہزار روپے کے قریب ہے یہاں اس کی قیمت چھیالیس سو روپے اور بلیک میں اس کی قیمت پچپن سو روپے ہوتی ہے۔ وہاں ڈی اے پی کی بوری چار ہزار پاکستانی روپوں میں ملتی ہے،پاکستانی کسان اس کے لئے چودہ ہزار روپے ادا کرتا ہے۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ سرکار زرعی شعبہ اور کسانوں کے لئے سہولیات کا از سر نو جائزہ لے اور ایسے اقدامات کرے جو زراعت کو جدت عطا کرنے کے ساتھ اس کی ترقی کا باعث ہوں۔ ایس آئی ایف سی کے گرین کارپوریٹ انیشی ایٹو کی بدولت زراعت کا شعبہ خوشحالی کی جانب گامزن ہے۔ زراعت پاکستانی معیشت کا بنیادی ستون ہے جو جی ڈی پی میں تقریبا 70 فیصد کی شراکت دار ہے۔ایس آئی ایف سی کے تحت گرین کارپوریٹ انیشی ایٹو کی کاوشوں کی بدولت زرعی منظرنامے میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔ روایتی سے کارپوریٹ طرز کی زراعت کی طرف منتقلی زرعی شعبے کیلئے اہم اقدام ہے۔گرین کارپوریٹ انیشی ایٹو کی کامیاب حکمت عملی، کسانوں کو معیاری کھاد اور بیجوں کی فراہمی سے پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پاکستانی زرعی مصنوعات کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے گندم، کپاس اور تل کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے۔یہ سب حوصلہ افزا امکانات ہیں لیکن کسانوں کے کچھ تحفظات کو بھی سامنے رکھا جانا چاہئے۔فصلوں کے ساتھ ، لائیو سٹاک ،باغات، جنگلات کو گرین پاکستان پروگرام میں شامل کیا جائے،کسان حقوق کو محفوظ کیا جائے، کارپوریٹ زراعت کے ماڈل میں فوائد کے ساتھ کچھ نقصانات بھی ہیں ان کے لئے کسانوں سے مشاورت میں حرج نہیں ۔ایک اہم معاملہ زمینوں کی الاٹمنٹ میں میرٹ ترتیب دینے کا ہے۔ان امور کاتفصیل سے جائزہ لے کر کچھ ترامیم کر لی جائیں تو زرعی شعبے کی ترقی کے ساتھ زراعت سے وابستہ طبقات بھی ترقی کر سکیں گے ۔یوںگرین پاکستان پروگرام کی افادیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
٭٭٭