دنیا کی تاریخ میں کئی ایسی قومیں اور شخصیات آئیں جنہوں نے اپنے اسلاف اور ان کی نشانیوں کی قدر نہ کی وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ،بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کس ہمت حوصلے ، بہادری اور ثابت قدمی سے پاکستان کی تحریک چلائی اور دنیا نے دیکھا کس طرح پاکستان قائم ہوا، قیام پاکستان میں قائداعظم کے ساتھیوں میں اصفحانی صاحب کا نام آتا جو بہت بڑے بزنس مین تھے۔زیادہ کاروباری اور مقبول لوگ انڈیا چھوڑ کر گئے اصفحانی صاحب شروع کے وقت سرکاری اداروں کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے مال مدد فراہم کرتے بیرونی ممالک میں سفارت خانے قائم کرنے کا وقت بھی قائداعظم کے قریبی ساتھیوں نے مدد کی۔واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ کے لئے بلڈنگ1948خریدی گئی جس کی قیمت تقریباً پچاس ہزار ڈالر یا کچھ زیادہ اصفحانی صاحب نے ادا کی۔تقریباً پچاس سال اس بلڈنگ میں سفارت خانہ پاکستان قائم رہا نوے کی دہائی میں امریکی دفتر خارجہ نے اپ ٹائون واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے لئے اراضی الاٹ کی، نیشنل بینک سے پندرہ ملین ڈالر قرضہ لیا گیا ،عمارت کو جدید اور قدیم تاریخی طرف پر تعمیر کیا گیاجو پاکستان میں شاہی قلعہ لاہور اور ملتان کے مزارات سٹائل ٹائیلز طرز تعمیر نذر آتا ہے۔نئی بلڈنگ میں بڑے ہال میں چار پلر ہیں جو گنبد کو سپورٹ کرنے کے لئے تعمیر کے گئے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر گنبد نہ بن سکا اور خطیر رقم سے یہ پلرز اسی طرح بغیر ضرورت کھڑے کردیئے۔نئی بلڈنگ میں منتقلی کو تقریباً اٹھارہ سال ہوچکے اور پرانی بلڈنگ جو ایک تاریخی ورثہ کی حیثیت ہے بھوت بنگلہ کا نظارہ وہ پیش کر رہی ہے۔اٹھارہ سال سے اس بلڈنگ پر کروڑوں ڈالرز تدفین آلائش پر لگائے گئے ہیں۔سابق سفیر ریاض کھوکھر سے لیکر آج تک حاضر سروس سفیر سمیت کسی سفارت کار نے اس قومی ورثہ کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔یہ تاریخی بلڈنگ گزشتہ دو سال سے کرایہ پر لگا دی گئی ہے لیکن تاحال کوئی کرایہ دار اس بلڈنگ میں دلچسپی نہیں لے رہا ،واشنگٹن میں پاکستان کے سفارت کار اپنی اپنی نوکری کرنے میں مصروف ہیں، ڈانگلش میں ڈپلومیسی اردو میں معنی جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کرنا ہوتا ہے۔جس کا عملی مظاہرہ اس وقت پاکستان سفارت خانہ کررہے جس طرح کیپٹل ہل پر پاکستان کاکس ہوائوں میں موجود ہے۔اسی طرح پرانی تاریخی بلڈنگ کا معاملہ بھی غیر سنجیدہ لسٹ کو شامل ہے کیپٹل ہل پر کاکس کے دعویدار بھی آج تک کاکس کی رجسٹریشن اور قانونی حیثیت کو ثابت نہیں کرسکے یہ دعویدار کاکس کے ذریعے جھوٹی کوششوں پر صدارتی ایوارڈ بھی لے چکے ہیں۔ایک طرف پاکستان کے سفارت کار دوسری طرف کاکس کے جھوٹے دعویدار اپنی اپنی نوکریوں اور کاروباروں کو ترقی دینے میں مصروف ہیں امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں جہاں فری بنچ نہیں ملتا جو کوششیں اور کاوشیں جس بھی فیلڈ میں کرو اس میں کامیابی ضرور ملتی ہے۔معاملہ پرانی ایمبسی بلڈنگ کا جو زیرالتوا ہے اس بلڈنگ کو پاکستان ہائوس یا جناح ہائوس کا نام دیکر عوام کے لئے کھول دینے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم عمران خان صاحب سے درخواست ہے واشنگٹن میں اس قومی ورثے اور دیگر سرکاری عمارتوں پر توجہ دیں اور پاکستان کا یہ ورثہ محفوظ کرنے کے احکامات جاری کریں تاکہ امریکہ میں آباد پاکستانی اور نئی نسل پاکستان کے کلچر ،روایات اور مذہب سے زیادہ آگاہی حاصل کرسکیں اور پاکستانی قوم کو اپنے اسلاف اور ورثے تاریخ کو محفوظ کرنے کا موقع بھی ملے۔