(PILDAT)پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسٹیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانس پریسی سن2000ء سے پاکستان میں جمہوریت کی ترویج اور توجیح پر کام کر رہا ہے۔آسان زبان میں یہ ادارہ پاکستان میں ہر وہ کام کر رہا ہے۔جس سے جمہوریت، پاکستان میں مضبوط ہو سکے اور عوام کی جمہوریت کے متعلق آگاہی میں اضافہ ہوسکے نہ صرف یہ بلکہ یہ آئین ساز اداروں (قومی اسمبلی اور سینٹ)کے اراکین کی تربیت میں بھی ایک تاریخی کردار ادا کرتا رہا ہے۔اس ادارے نے سن2007یوتھ پارلیمنٹ آف پاکستان کے نام سے ایک اور پراجیکٹ کی بھی داغ بیل ڈالی جس کا مقصدتھا سیاست میں پاکستان کی نوجوان نسل کی سیاست میں دلچسپی میں اضافے کیلئے اقدامات کئے جائیں اور مستقبل کے اہل سیاستدانوں کی تربیت کا سامان پیدا کیا جائے اس پراجیکٹ کے ذریعے اب تک نوجوان پارلیمنٹ یا یوتھ پارلیمنٹ کے ہیں۔ PATCHسارے مراحل میں گزر کے اپنی تربیت مکمل کر چکے۔پلڈیٹ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ نوجوانوں کو سیاسی دھارے میں شامل کئے بغیر جمہوریت کو پاکستان میں مضبوط نہیں کیا جاسکتالیکن مسئلہ پاکستان میں صرف تربیت کا فقدان نہیں بلکہ ریاست کی مداخلت(جمہوری عمل میں)اور عدلیہ کی آزادی سے میرٹ پر فیصلے کرنے سے معذوری نے جمہوریت کی کمزور جڑوں کو مزید کمزور کردیا ہے جس معاشرے میں طاقتور کے سامنے انصاف نہ ملتا ہو وہاں پر اس امر کی کونسی ضمانت ہے کہ انتخابی تنازعات کا فیصلہ عدالتیں منصفانہ انداز میں نپٹا سکیں گی۔ریاستی اداروں کی بے پناہ طاقت اور دخل اندازی نے ملکی اداروں کو کمزور سے کمزور تر کردیا ہے ۔چیکس اور بیلنسز کا ایک روایتی توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔یہ توازن اسی وقت رکھا جاسکتا ہے کہ جب ملکی ادارے بغیر کسی ڈر وخوف کے اپنا اپنا کام کرسکتے ہوں ا ور دوسرے اداروں کو آئین کے تحت جو کردار سونپا گیا ہے وہ اس کردار کو بغیر کسی دبائو ڈر اور خوف کے ادا کرنے میں مکمل طرح سے آزاد ہوں۔اگر ریاست کے دو ستون(ادارے)آپس میں ٹکرا جائیں تو عدلیہ اس معاملے کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے فیصلہ کرنے کی نہ صرف اہل ہو بلکہ آزاد بھی ہو ۔انتظامیہ کی عدالتی نظام میں کوئی بھی مداخلت نہ ہو ،ججوں کی تقرری خالصتاً پہلے سے طے شدہ قوائد کے مطابق ہو اور اس عمل میں کسی کی پسند اور ناپسند کا عمل دخل نہ ہو۔ریاستی اداروں کا سیاسی اور جمہوری عمل میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے۔جب تک ان دو بنیادی اصولوں پر پابندی سے عملدرآمد نہیں ہوگا تب تک جمہوری ادارے اور اقدار کبھی بھی مضبوط نہیں ہو پائیں گے کیونکہ ان دو بنیادوں کے بغیر جمہوریت کا ڈھانچا ہمیشہ ڈگمگاتا رہے گا۔پاکستان کی74سالہ تاریخ اس حقیقت کی گواہی دے رہی ہے لیکن مداخلت کا وہی نسخہ بار بار آزمانے والے بھی نہیں تھکتے اور وہی نسخہ بار بار دھراتے ہیں ،وہی نتائج حاصل کرنے کے باوجود اس آزمائے ہوئے نسخہ کو ترک نہیں کرتے، عالم اسلام میں دن بدن پاکستان کی اہمیت اور افادیت میں اضافہ کے پیش نظر مغربی ممالک اس امر میں گھری دلچسپی لے رہے ہیںکہ پاکستان عالم اسلام کی ایک مثالی ریاست بن کے اُبھرے جس میں ایک مضبوط جمہوری نظام موجود ہو کیونکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ایک آزادانہ جمہوری نظام کے بغیر کسی ملک کی عوام کے بنیادی مسائل حل ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔جب مسلمان ممالک کی عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر آتے ہیں تو مغربی طاقتیں اپنے مفادات کو بچانے کیلئے ان حکمرانوں جو اکثر اوقات یا آمر یا شہنشاہ ہوتے ہیں جن کا سودا ہوا ہوتا ہے کہ مغربی طاقتیں انکی حکومتوں کو بچائیں اور وہ حکمران مغربی دنیا کے مفادات کی حفاظت کرینگے۔یہ پرانا کھیل جب تک جاری رہیگا دنیا میں فسادات اور ٹکرائو جاری رہیں گے۔کشمیر ہو یا فلسطین یا پھر دنیا کے مختلف ممالک میں وقتاً فوقتاً مسلمانوں کی نسل کشی اوپر سے غیر مقبول مسلم حکمران ای ساری فضا کو خراب کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
بہرحال اس بدترین عالمی ماحول میں پاکستان2023میں انتخابات کی تیاری میں مصروف عمل ہے۔اور تحریک انصاف نے فیصلہ کیا ہے کہ نئے انتخابات سے پہلے نئی کردہ شماری کرائی جائے کیونکہ2017ء میں ہونے والی مردم شماری متنازعہ ہوچکی ہے اور یہ مردم شماری میں نادرہ کے ریکارڈ سے مدد لے کر قلیل مدت ہے بڑا کام جلد سے جلد مکمل کرکے اس کمپیوٹرائزڈ مردم شماری کی بنیاد پر نئے انتخابات کروائے جائیں۔یہ شیخ چلی کا خواب تو ہو سکتا ہے لیکن ایک حقیقت پسند حکمت عملی ہرگز نہیں سب سے پہلے نئی مردم شماری کو عوام کے کئی حلقہ تسلیم نہیں کرینگے اور حزب مخالف جماعتیں ایسے انتخابات سے پہلے دھاندلی سے تشبیہ دینگے۔اسکے بعد تحریک انصاف کی حکومت ووٹ ڈالنے کا برقی(Electromc)نظام ترامیم کرکے مشین کے ذریعے ووٹنگ کا نظام2023کے انتخابات میں آزمانا چاہتی ہے۔یہ مشینی نظام امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں متنازعہ ہوگیا ہے پاکستان میں چار لاکھ بجلی پر چلنے والی مشینوں کے ذریعے260قومی اسمبلی کی نشستیں اور593صوبائی حلقوں کے انتخابات ایک بہت بڑا تجربہ ہوگا جس کے لیے مختلف ماہرین بھی پرامید نہیں ہیں۔