پھر یوں ہوا کہ پانی سروں سے گزر گیا !!!

0
72

صدر ریگن کے دور میں، پوری دنیا میں پھیلی ہوئی، امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والی سرد جنگ تو روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی وجہ سے تھم گئی تھی لیکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے جن مسلمانوں کو تختہ مشق بنا کر روس کو شکست دی تھی، اسی اُمتِ مسلمہ کو اپنا اگلا دشمن قرار دینے کیلئے ایک طویل المدت پالیسی پر عمل کرنے کا آغاز بھی کر دیا تھا، اقبال کے مطابق ابلیس نے ہی مغرب کو یہ سکھایا تھا کہ!
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں
نوے کی دہائی میں امریکہ بہادر کی قیادت میں مغربی فوجیں پہلے تو صحرائے عرب میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD) کی نام نہاد تلاش میں رہتے ہوئے عرب کے مسلم نوجوانوں کے دلوں میں نفرتوں کے بیج بوتی رہیں اور پھر اس کے بعد سابق یوگوسلاویہ کے مسلم علاقوں میں اتنا بڑا قتلِ عام کیا گیا کہ لاشوں کے انباروں کی تصاویر نے پوری امتِ مسلمہ کو واقعی مغرب کی دشمنی پر آمادہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ علامہ اقبال تو پہلے ہی بتا چکے تھے کہ!
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
اس پسِ منظر میں، نئی صدی کا آغاز ہوتے ہی، گیارہ ستمبر کے تاریخی دن، ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی دونوں بلند و بالا عمارتوں کے ساتھ دو مسافر طیارے کچھ اس طرح ٹکرائے کہ معصوم افراد لقمہ اجل بن گئے۔ زخمیوں کی تعداد تو ہزاروں میں تھی۔ ہماری نیو جرسی کی مسلم کمیونٹی کیلئے بڑا سانحہ یہ تھا کہ طارق امان اللہ بھائی بھی اس حادثے میں شہید ہو گئے۔ وہ میرے چند انتہائی قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی، انکی یادیں کم نہیں ہوئیں۔ سانحہ نائین الیون، تاریخ کا ایک ایسا ہولناک المیہ ثابت ہوا کہ اس کے بعد والا امریکہ بالکل ہی بدل گیا۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ہر امریکی کو اپنا طرزِ زندگی بدلنا پڑا۔ ہر قسم کا سفر مشکل اور مہنگا ہو گیا۔ ہر فرد نے ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ مسلمان جو امریکی لائف اسٹائل کے دلدادہ تھے، انہیں اپنی مساجد اور کمیونٹی سنٹرز کی فکر ہوئی۔ مسلم دنیا اور خاص طور پر افغانستان اور پاکستان کو مغربی افواج کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ اور مسلم ریاستوں کے درمیان نفرتوں میں مزید اضافہ ہوا۔ صیہونی قوتوں نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، فلسطین سے آگے بڑھتے ہوئے، لبنان، شام، لیبیا، یمن، ایران اورعراق کے علاقوں میں اپنی جارحیت میں مزید اضافہ کیا۔ غرض یہ کہ پانی کو سر سے گزارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ اقبال نے بھی امتِ مسلمہ کے حالات کے بارے میں کہا تھا کہ!
ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
امریکہ میں سانحہ نائین الیون سے چارلی کرک کے قتل تک کا سفر، تقریبا ربع صدی پر محیط ایک ڈرانا خواب ہے جس کے مضر اثرات سے پوری دنیا نبرد آزما ہے۔ سفید بالا دستی کا وہ نظریہ جو خاصی حد تک معیوب اور معتوب ہو چکا تھا، آج ایک مرتبہ پھر پوری طرح ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ نسل پرستی کی وہ آگ جو اب تقریبا پورے مغرب کو اپنے لپیٹ میں لے چکی ہے، گھٹنے کی بجائے بڑھتے چلی جارہی ہے۔ معاشی بدحالی، شاید ان نفرتوں کی سب سے بڑی وجہ ہو لیکن اس خطرناک صورتحال کا کوئی حل سرمایہ دارانہ نظام کے پاس موجود نہیں۔ البتہ اقبال نے ہمیں ان مسائل کے حل کا جو نسخہ کیمیا دیا تھا، وہ آج بھی پوری دنیا کیلئے مشعلِ راہ ہے۔
خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسم سامری
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here