سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے اہم رہنما احسن اقبال نے چند روز قبل ایک بیان دیا کہ آنے والی حکومت کو انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، موجودہ حکومت تحریک انصاف نے ملک کو جس نہج پر پہنچا دیا ہے ان نقصانات کا ازالہ کرنا آنے والی حکومت کے لیے پانچ سالوں میں ممکن نہیں ہوگا۔
بطور صحافی میں سمجھتا ہوں کہ یہ بیان غیر معمولی نوعیت کا نہیں بلکہ پاکستان میں سیاست کے مستقبل کی عکاسی کر رہا ہے۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ معاملات موجودہ حکومت کے ہاتھوں کے نکلتے جا رہے ہیں، پاکستان کے اسٹیبلشمنٹ اپنے ہاتھ کھڑے کرنے کے بعد بہت جلد اپنا ہاتھ موجودہ حکومت سے ہٹانے کو تیار ہے۔ معلوم نہیں کہ آئندہ حکومت کس جماعت کے حصے میں آئے مگر پاکستان تحریک انصاف حکومتی بینچوں سے ضرور رخصت ہونے والی ہے۔
گزشتہ مہینے میں ہونے والی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو امریکی سفیر اور امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ کی حکومتی رہنماؤں سے ملاقات کے برعکس اپوزیشن کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کو میڈیا میں بھرپور کوریج دی گئی۔
جس سے یہ تاثر ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ شاید امریکہ بھی پاکستان میں نئی حکومت کا خواہشمند نظر آتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومتی ایوانوں میں چہروں کے بدلنے سے کیا عوامی قسمت بدل سکتی ہے۔ کم ازکم ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو اس کا جواب ناں کی صورت میں ہی نظر آتا ہے۔
موجودہ حکومت میں ہونے والی تباہ کاریوں سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے، ابھی تو فائلوں کے پلندے کھلیں گے تو نہ جانے کیا کہ سامنے آئے۔
مستقبل کی حکومت بھی پانچ سال شاید یہی راگ الاپتے رہے کہ سابق حکومت نے تباہ کر دیا، خزانہ خالی کر دیا۔
حقیقت میں پاکستان کو اب کوئی قوت راہ راست پر لا سکتی ہے تو اس قوت کا نام فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے۔
یہ قوت اپنی قوت کا استعمال کرنا چھوڑ دے، تو مستقبل کا پاکستان حقیقت میں ویسا بن سکتا ہے جیسا ہمارے لیڈروں کی تقریروں میں نظر آتا ہے۔
موجودہ حکومت کی ہر ناکامی کو فوجی جنرلوں کی پشت پناہی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ وہ صحافی جو کسی زمانے میں حکومت کا سر توڑ دفاع کرتے تھے وہ بھی سرعام گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ فوجی جرنیلوں کے کہنے پر انھوں نے موجودہ حکومت کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ مگر اب ان کی بھی بس ہوگئی ہے۔