نئے آئی ایس آئی سربراہ کی تعیناتی پر ڈیڈ لاک

0
118
مجیب ایس لودھی

پاک فوج کو دنیا بھر میں ایک منظم ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے جہاں رنگ ونسل مذہب سے بالا تر ہو کر ایک سینئر افسر جونیئر کو سیلوٹ کرتا ہے ، عزت دیتا ہے ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے گزشتہ دنوں آئی ایس آئی کے موجودہ چیف جنرل فیض حمید کی جگہ نئے آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی تقرری کا اعلان کیا گیالیکن اس تقرری کو سات روز گزر جانے کے باوجود وزیراعظم ہائوس سے منظوری نہیں مل سکی ہے جس کے حوالے سے سوشل میڈیا اور میڈیا میں مختلف قیاس آرائیاں سامنے آ رہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری سے ناخوش ہیں اور وہ موجودہ آئی ایس آئی چیف کو زیادہ موزوں قرار دیتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ
گزشتہ ادوار پر نظر دوڑائی جائے تو پاک فوج میں تقرر و تبادلوں کو ہمیشہ حکومت سے الگ رکھا جاتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ وزیراعظم صرف ان تقررو تبادلوں کے نوٹیفکیشن یا سمری پر صرف دستخط کرتے ہیں یعنی اس کے متعلق کوئی بازپرس عام طور پر نہیں ہوتی ہے کیونکہ تمام تقررو تبادلے فوج کے پیرامیٹر کے مطابق ہی ہوتے ہیں جس پر سوالات کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ہے لیکن موجودہ دور حکومت میں پہلی مرتبہ وزیراعظم کی جانب سے نئے آئی ایس آئی چیف کی تقرری کے حوالے سے تاخیر سامنے آ رہی ہے ۔
ادھر دارالحکومت اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں یہ خبریں گرم ہیں کہ وزیراعظم عمران خان سبکدوش ہونے والے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فیض حمید ہی اس عہدے پر کام جاری رکھیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیض حمید کو اب پشاور کا کور کمانڈر مقرر کیا گیا ہے اگرچہ حکومت کا اب یہ موقف سامنے آیا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر وزیراعظم اور آرمی چیف ‘دونوں کا اتفاق رائے ہے۔ اس میں اتھارٹی وزیر اعظم کی ہے۔سوشل میڈیا پر اس وقت ‘ڈی جی آئی ایس آئی’ ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے جس میں عام لوگوں سے لے کر صحافی و تجزیہ کار اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔بعض لوگوں کی رائے ہے کہ کچھ دنوں کی تاخیر کے بعد حکومتی موقف نے قیاس آرائیاں دور کر دی ہیں جبکہ ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ ابہام کی فضا برقرار ہے۔وزیر اعظم عمران خان اپنا کمفرٹ لیول دیکھنا چاہتے ہیں اور ابھی تک جنرل ندیم انجم کے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن نہ ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وزیر اعظم انفرادی تبدیلیاں چاہتے ہیں جبکہ ادارے شخصیات سے زیادہ مقدم ہوتے ہیں۔
دنیا کے تمام ممالک میں افواج کے امور کو الگ رکھا جاتا ہے اس کے انتظامی امور میں حکومتوں کی براہ راست مداخلت نہیں ہوتی ہے ، حال ہی میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس کو ایوان میں طلب کیا گیا اور اس موقع پر اراکین نے چیئرمین جوائنٹ چیفس پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی لیکن انھوں نے انتہائی تحمل مزاجی کے ساتھ جوابات دیئے اور ان کا ایک جملہ کافی مقبول ہوا جس کے دوران انھوں نے بتایا کہ میری رائے اور تجویز یہ تھی کہ افغانستان سے فوجی انخلا کو فی الحال روک دیا جائے کیونکہ ہماری فوج ابھی اس پوزیشن میں نہیں تھی جس پر اسمبلی رکن نے سوال کیا تو اگر حکومت نے آپ کی تجویز کے مخالف اقدام کیا تو آپ نے احتجاج کیوں نہیں کیا ؟تو اس کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ بطور آرمی آفیسر میری ڈیوٹی حکومت کو تجویز دینا ، بہترین نقطہ نظر پیش کرنا ہے میری ڈیوٹی احتجاج کرنا ہرگز نہیں ہے ، یہ جملہ ہماری افواج کے لیے بھی مثال ہے کہ ان کا کام اپنے آئین اور قوانین کے مطابق ڈیوٹی انجام دینا ہے نہ کہ حکومت اور سیاسی معاملات میں مداخلت کرنا ہے کہ جس طرح سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ذاتی اختلافات اور عناد کی وجہ سے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا تھا کہ ایسے حکمرانوں کے ہاتھوں میں ملک کا ہونا خطرناک ہے ، فوج ایک منظم ادارہ ہوتا ہے جس کا کام اپنے قوانین ، اصولوں کے مطابق ڈیوٹی انجام دینا ہے ، حکومت کو بہترین دفاعی حکمت عملی سے آگاہ کرنا ہوگا نہ کہ ملکی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے جمہوریت کی ایسی کی تیسی کر دینی چاہئے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here