میں جب اپنی بیگم کو بہلا کر پھسلا کر میئر کے الیکشن کے دِن ووٹ ڈلوانے لے گیا تو مجھے توقع اِس بات کی تھی کہ پولنگ بوتھ پر لوگوں کی بھر مار ہوگی، دھکم دھکے میں مجھے کسی انتخابی اہلکار تک پہنچنا ہوگا لیکن ایسی کوئی بات مجھے نظر نہ آئی ، درحقیقت ووٹرز کم اور پولنگ اہلکار زیادہ تھے جو کسی سینئر سٹیزن سینٹر میں چیکرزیا شطرنج کھیلنے کے بجائے پولنگ اسٹیشن میں دِل بہلانے آں گئے تھے،ایک بنگالی ٹوپی پہنے استقبالیہ ڈیسک پر براجمان تھا جو اِس بات کا مظہر تھا کہ یہاں مسلمانوں کی نمائندگی بھی مساوی طور پر ہورہی ہے، اُن ہی کی فوج در موج نے ہمیں محاصرہ میں لے لیا حالانکہ چند دِن قبل میں ووٹ ڈال چکا تھا لیکن مجھے بھی اصرار پہ اصرار کیا جانے لگا کہ میں ایک مرتبہ پھر ووٹ ڈال دوں، مجھے پتا تھا کہ یہ کوئی پاکستان نہیںجہاں ایک بندہ سو سو ووٹ ڈال کر فخریہ طور پر ملک کے قانون سازوں کو اپنی بہادری کی داستان سناتا ہے بہرکیف ایک پولنگ افسر نے ہماری بیگم کو یہ دِل خستہ خبر سنادی کہ ہم ووٹ تو ضرور ڈال سکتے ہیں لیکن اُن کی اسکیننگ مشین ناکارہ ہوگئی ہے اِسلئے ہمارے بیلٹ پیپرز کو ایک لفافے میں رکھ کر حکام کے حوالے کر دیا جائیگا۔ آیا وہ لفافہ کسی حکام اعلیٰ یا بالا کے پاس جائیگا یا بحر اوقیانوس اُس لفافے کی آخری منزل ہوگی، طرح طرح کے خیالات میرے ذہن میں جنم لینے لگے، میں نے اپنی بیگم کو دلاسا دیا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، میں گھر پہنچتے ہی اِس کی اطلاع نیویارک ٹائمز میں پوسٹ کر دونگا، میری بیگم نے ناراضگی سے جواب دیا کہ تم اِس سے زیادہ کر ہی کیا سکتے ہو،پولنگ اسٹیشن کے باہر لوگوں کی لائن یا اجتماع کا نہ ہو نا اِس بات کی دلیل تھی کہ نیویارکر ز کو میئر کے انتخاب سے کوئی دلچسپی نہ تھی یہی وجہ ہے کہ کُل 3.7 ملین ڈیموکریٹ ووٹرز میں سے صرف 798,491 ووٹروں یعنی 21.58 فیصد نے بیلٹ پیپرز پر نشان لگا کر اپنی رائے کا اظہار کیا تھاباقی ووٹرز میرے دوست کی طرح گھر پر سو رہے تھے اُنکا موقف تھا کہ آخر وہ ووٹ ڈالیں تو کیوں؟ جبکہ کوئی بھی میئر کا امیدوار اُن کے دِل کو نہیں بھا رہا تھا بعض ووٹر کا خیال تھا کہ ووٹ ڈالنے سے اُنہیں کون سا اشرفی کا خزانہ مل جائیگا، کون سا انقلاب اُن کی زندگی میں آجائیگا تو پھر کیوں وہ جھوٹ موٹ کی زحمت کو اپنے سر لے لیں تاہم اِس سے قبل تک سیاسی مفکروں ، معاشرتی ماہروں نے ووٹ ڈالنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اِس عمل سے ووٹر ز اپنے حقوق کا صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں، وہ بجائے ہنگامہ آرائی ، گلہ و شکوہ یا جلاؤ گھیراؤ کرنے کے یکلخت ایک شاٹ میںا یوان نمائندگان میں بیٹھے اپنے رہنما کی چھٹی کر دیتے ہیں۔ اب رہا امیدوار کا انتخاب تو اِس ضمن میں ووٹرز رنگ و نسل ، فرقہ یا علاقے کو بالائے طاق رکھ کر بہتر سے بہتر فرد کو منتخب کرنے کو اپنا فرض سمجھیں،مہذب یافتہ ممالک میںانتقال اقتدار کا یہی ایک طریقہ کار ہے جس کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم اپنے نمائندے کو منتخب کرتے ہیں۔بہرنوع میئرکا الیکشن پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور ایرک ایڈمز بقول اُنکے میئر منتخب ہوگئے ہیں تاہم اُنہیں اب سے میئر کا حلف لینے تک سات سمندر پار کرنا باقی ہے، اُنکے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اُن کے دِن کا چین اور رات کی نیند حرام ہوچکی ہے، وہ دوران نیند چیخ مارتے ہوئے اُٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں میئر ہوں ، اُن کا بیٹا اُنہیں تھپکی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ہاں آپ میئر ہیں ، ایرک ایڈمز اُس سے پوچھتے ہیں کہ تو پھر میں حلف کب لونگا، بیٹا جواب دیتا ہے کہ ” کوئی نہیں جانتا ، یہ گوروں کی سلطنت ہے” ایرک مغلظات نکالتے ہوئے پھر سو جاتے ہیں،ایرک ایڈمز کے انتخاب جیتنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ کھڑی ہو گئی ہے کہ اُنہوں نے ووٹ تو سب سے زیادہ لیے ہیں لیکن وہ مجموعی ووٹ کے صرف 32 فیصد ہیں،میئر کے اثر و نفوذ کو قائم رکھنے کیلئے 60 فیصد ووٹ حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے یہ سوال پوچھنا شروع کردیا ہے کہ ایرک ایڈمز سارے نیویارکرز کے میئر کس طرح ہوسکتے ہیں، جبکہ اُنہیں صرف 32 فیصد ووٹرز کی نمائندگی حاصل ہے، اِن سارے بحران کی وجہ بھی صرف یہ ہے کہ لوگ ووٹ ڈالنے نہیں جاتے ہیں۔اب آپ مثال لیجئے ہمارے دوست راشد علی کی ، جب میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ ووٹ دینے کیوں نہیں گئے تھے ؟تو اُنہوں نے جواب دیا کہ میئر کے امیدواروں میں کوئی اسلام پسند نہیں تھا، ایرک ایڈمز تاہنوز ایک ڈومیسٹک پارٹنر کے ساتھ رہ رہے ہیں، اِس سے قبل بھی اُن کی ایک اولاد ایک غیر شادی شدہ عورت کی کوک سے پیدا ہوئی تھی لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ چند ماہ بعد ہی اُنکا کوئی سیکس اسکینڈل طشت از بام ہوجائیگا، میئر کی دوسری امیدوار مایا وہیلی دو بچوں کی سنگل مادر ہیں، اِسی طرح تیسری امیدوار ڈینی مورالس بھی ایک سنگل مادر ہیں تو پھر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں اِن لوگوں کو ووٹ دے کر جہنم رسیدہ ہوں، ہمارے دوسرے دوست جو ایک فارماسسٹ ہیں جب میں نے اُن سے دریافت کیا کہ وہ ووٹ دینے کیوں نہیں گئے تھے تو اُنہوں نے جواب دیا کہ اُن کی اجرت فی گھنٹے سو ڈالر کے حساب سے ہوتی ہے، ووٹ دینے کیلئے اُنہیں کم ازکم ایک گھنٹہ صرف کرنا پڑیگا اگر کوئی اتنے وقت کی قیمت اُنہیں ادا کردے تو وہ ضرور جاکر اُسے ووٹ دینگے۔ میں نے اُن پر ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ تو پھر آپ اپنا ووٹ فروخت کرنا چاہتے ہیں؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ امریکا ہے ، یہاں ہر شے برائے فروخت ہے، آپ کے سوشل سیکیورٹی کی چیک میں بھی طوائفوں اور شراب فروشوں کا ٹیکس شامل ہوتا ہے۔