انتقامات، مکافات اور مصالحت !!!

0
94
رمضان رانا
رمضان رانا

راقم الحروف کو طلبا سرگرمیوں اور تحریکوں میں جیل یاترہ کا اچھا خاصا تجربہ اور مشاہدہ ہے جو1979ء میں سندھ پملٹ کیسی کے بغاوتی مقدمے میں ترک وطن پر مجبور ہوا ،اس لیے میں نے احتجاجی تحریکوں کو قریب سے دیکھا ہوا ہے کہ جب باچا خان، ولی خان، شیخ مجیب، غوث بخش بزنجو، خیر بخش، مری عطاء اللہ مینگل، مختار رانا، معراج محمد خان افسراسیاب خٹک، عثمان بلوچ، بھٹو، بینظیر بھٹو، نوازشریف، جاوید ہاشمی اور سینکڑوں سیاستدانوں، مزدور اور طلباء رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا لہٰذا سیاستدانوں کی گرفتاری اور سزائیں کوئی اچھا عمل نہیں ہے مگر بھٹو نے نیب پر پابندی اور رہنمائوں کو حیدر آباد کیس میں جیلوں میں قید کیا تو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسی طرح عمران خان نے اپنے دور بربریت میں ملک کی اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالا جس کے نتائج ان کے سامنے آچکے ہیں کہ آج توشہ خانہ کے علاوہ فارن فنڈنگ190ملین پونڈ جرمانہ کیس، بی آر ٹی مالم جبہ، بلین ٹری، رنگ روڈ، بیٹی کی ولایت، عدت میں مدت پوری نہ ہونے جیسے مقدمات میں ملوث ہیں۔ جنہوں نے اپنے دور حکمرانی میں جعلی اور جھوٹے مقدمات بن کر مردوں اور عورتوں سے انتقام لیا تھا۔ جس میں رانا ثناء اللہ کو چھ ماہ تک6×6کے کمرے میں قید رکھنا مریم نواز کے قید خانے میں کمرے تک لگوانا شامل ہے جو نہایت گھٹیا اور غیر انسانی حرکتیں تھیں کہ آج عمران خان کی گرفتاری اور سزا پر کوئی شخص بھی نہیں بول رہا ہے حتکہ ان کی اپنی پارٹی کے اراکین خاموش ہیں چونکہ عمران خان آج بھی جنرلوں اور ججوں تک رسائی ہے جو کل کلاں کسی بھی وقت رہا ہوسکتے ہیں چاہے عمران خان کو پاک فوج کو دنیا بھر میں رسوا کیا ہو جس کے باوجود انہیں جنرل اور جج آج بھی ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں جس کی بنا پر 9مئی کی بغاوت برپا ہوئی ہے جبکہ عدالتیں مکمل طور پر عمران خان کی گزشتہ ایک سال سے مدد کر رہی ہیں کہ جن کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کو عبوری، حفاظتی ضمانتیں دے دے کر تھک چکی ہیں جو ہر مقدمے اور عدالت غیر حاضر رہے ہیں جس کا آخر کار نتیجہ نکلا یہ توشہ خانہ میں عمران خان کی غیر حاضری کے خلاف فیصلہ آیا کہ انہوں نے عداللتوں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔ تاہم عمران خان کی سیاسی پیدائش، پرورش اور تربیت چالیس سال پہلے ہوا تھی جب جنرل ضیاء الحق نے بھارت کے ساتھ کرکٹ جیتنے پر عام چھٹی کا اعلان کیا تھا جس میں کرکٹ کی دنیا میں عمران خان کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہ آیا جبکہ درجنوں پاکستانی کرکٹر حنیف محمد، سرفراز نواز، میاں داد، شاہد آفریدی، ظہیر عباس اور بڑے بڑے کھلاڑی پائے گئے ہیں مگر کرکٹ کا تمام کریڈٹ عمران خان کو دے کر عوام کے ذہنوں میں ٹھونسنا گیا ہے۔ چنانچہ1986میں عمران خان کی ریٹائرمنٹ پر جنرل ضیاء الحق نے انہیں تاحیات پاکستان بنا دیا جن کے دور میں1992ورلڈ کپ جیتا گیا جس کے عوض عمران خان کو شوکت خانم کی ایسی گائے تحفے پر دی گئی کہ اس کے دودھ سے پورا خاندان ارب پتی بن چکا ہے بعدازاں جنرل گل حمید، جنرل مشرف، جنرل پاشا، جنرل ظہیر السلام، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے عمران خان کو اتنا بڑا شیطان بنا دیا کہ انہوں نے غصے کے عالم میں9مئی کو فوج پر حملہ کردیا جس روز فوجی بیرکوں، چھائونیوں، اڈوں ہیڈکوارٹروں، دفتروں، یادگاروں پر حملے ہوئے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے چاہے بھٹو کی پھانسی اور بینظیر بھٹو کا قتل ہوا ہو یا پھر نوازشریف کو دو مرتبہ اقتدار سے محروم کرکے رسوا کیا گیا ہو۔ بہرکیف فوج نے جو بویا تھا وہ کاٹ رہی ہے کہ جن کے پیدا کردہ ہرکار اے آج پاکستان اور بیرون ملک فوج کو رسوا کر رہے ہیں جن کو گھر کا بھیدی کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جس نثار، ہارون رشید، معین پیرزاد اور دوسرے فوج کے پالتو لوگ پاک فوج کے خلاف بول رہے ہیں جن کا ایجنڈا صرف اورصرف پاکستان میں حکومت برپا کرتا ہے تاکہ ملک پر کوئی تاحیات آمریت نافذ کرکے پاکستانیوں کی مستقل غلام بنایا جائے جو اس دس سالہ منصوبہ بندی میں شامل تھا جو قدرتی طور پر ناکام ہوگیا۔ بہرحال عمران خان میں اگر ذرہ برابر عقل و شعور ہو تو اس انتقامیت کی بجائے اصلاحات کا دم پکڑنا چاہئے جس میں سیاستدانوں کے ساتھ بلاتفریق اور بلاامتیاز صلح وصفائی کرنا ہوگی جس طرح پی پی پی نے بھٹو مخالف پارٹیوں کے ساتھ مل کر ایم آر ڈی بنائی تھی۔ یا پھر نوازشریف اور بینظیر بھٹو شہید نے میثاق جمہوریت کی داغ بیل ڈالی تھی جو گزشتہ دو دہائیوں سے عوام کے لئے فائدے مند ثابت ہوئی کہ سیاسی کارکنوں میں نفرت کی بجائے اتحاد کی علامت بنی ہے کیونکہ سیاست میں انتقامیت زیادہ دیر تک نہیں چلتی ہے لوگ خانہ جنگی کے شکار ہوجاتے ہیں جس طرح کراچی کے شہری ایتھنک بنیادوں پر تقسیم ہوچکے ہیں جن کا آج پاکستان کی سیاست میں کوئی رول باقی نہیں بچا ہے لہٰذا آج انتقامیت کی بجائے مصالحت کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں استحکام پیدا ہو۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here