وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل(سی سی آئی) کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی متفقہ طور پر منظوری دے دی گئی ہے۔ اجلاس میں چاروں وزرائے اعلی، وفاقی وزرا اور ادارہ شماریات سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے حکام شریک ہوئے۔ 2023 کی ڈیجیٹل مردم شماری درست سمت میں ایک قدم ہے۔ مردم شماری کا مقصد مخصوص علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے تازہ پالیسی کے لیے ڈیٹا فراہم کرنا ہے تاکہ لوگوں کی بنیادی ضروریات مثلا اسکول، ہسپتال، سڑکوں وغیرہ کی تعمیر کے لیے مطلوبہ وسائل فراہم کیے جا سکیں۔ اگر یہ ڈیٹا دستی طور پر جمع کیا جائے تو وہاں اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ ڈیٹا میں ابہام ہوں گے۔ مردم شماری دستی طور پر کی جائے یا ڈیجیٹل، پاکستان میں ہمیشہ اس کے نتائج پر عدم اعتماد اور سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ یہ منتشر آوازیں، بدقسمتی سے، پوری مشق کو غیر یقینی بنا دیتی ہیں۔ 2017 میں ملک میں چھٹی مردم شماری دو دہائیوں کے وقفے کے بعد اس خدشے کے پیش نظر کی گئی تھی کہ مردم شماری کے نتائج سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ تاہم حکومت نے ساتویں مردم شماری شیڈول کے مطابق کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ امر خوشگوار حیرت کا حامل ہیکہ پاکستان میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری پورے جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی ڈیجیٹل مردم شماری ہے جسے عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔جنوبی ایشیا کے پہلے خود شماری پورٹل سے پاکستان کے 6.6 ملین خاندانوں نے استفادہ کیا جو اس نظام پر ان کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ اس مردم شماری نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص بہتر کیا۔لوگ خود کو قومی منصوبہ بندی کا حصہ بنانے میں دلچسپی لیتے رہے۔ مردم شماری کے انتظامات قابل قدر تھے ۔سٹیک ہولڈرز کے درمیان موثر ہم آہنگی اور مرکزی فیصلہ سازی کے جدید نظام سے لیس قومی مردم شماری کوآرڈینیشن سینٹر اور صوبائی مردم شماری کوآرڈینیشن سینٹرز قائم کیے گئے۔121,000 آئی ٹی تربیت یافتہ افراد کو ٹیبلیٹس اور مخصوص آپریٹنگ سسٹم کے ذریعے مرکزی ڈیٹا بیس سے بغیر کسی رکاوٹ کے منسلک کر کے ڈیٹا جمع کرنے کا عمل مکمل کیا گیا۔ چار کروڑ عمارتوں کو کثیر خصوصیات کے حامل سیٹلائٹ نقشوں پر جیو ٹیگ کیا گیا جو گوگل نقشوں سے زیادہ جامع تھیں۔ مردم شماری کے دوران روزانہ کی بنیاد پر تقریبا پچاس لاکھ افراد اور مجموعی طور پر پچیس کروڑ سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کو مرکزی سینٹرز سے بغیر کسی رکاوٹ کے منسلک کیا گیا۔ شکایات کے انتظام اور مسائل کے حل کے لیے 150 ایجنٹس کے ساتھ چوبیس گھنٹے کام کرنے والے کال سینٹرز نے 2 ملین کالز کیں۔ ڈیٹا کی کوالٹی ایشورنس اور کوریج کے تجزیہ کے لیے مردم شماری کے عمل کے دوران کمپیوٹرز کی مدد سے ٹیلی فونک انٹرویو کا طریقہ کار استعمال کیا گیا۔ فیلڈ سٹاف کے لیے موثر سپورٹ سسٹم کی فراہمی کے لیے مردم شماری کے سافٹ ویئر، ٹیبلٹس کے انتظام اور سکیورٹی کال سینٹرز پر 37 ورکنگ گروپ تشکیل دیے گئے۔ ٹیبلٹ کی تقسیم، مرمت اور دیکھ بھال اور ڈیٹا منسلک کرنے کے لیے پورے پاکستان میں تحصیل کی سطح پر 495 امدادی مراکز قائم کیے گئے تھے جو عوام اور مردم شماری کے عملے کے لیے شکایات کے ازالے کے مرکز کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔بتایا جا رہا ہے کہ اگلے مرحلے میں پالیسی سازوں اور محققین کے لیے فیصلہ سازی اور ریسرچ کو بہتر بنانے کے لیے ڈیٹا کی فراہمی کا پورٹل بھی تیار کیا جائے گا۔تمام ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبوں کے لیے بیس لائن تیار کی جائے گی اور ہر منصوبے کے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔آئندہ چند ماہ میں ڈیجیٹل مردم شماری کے ثمرات سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔اکٹھا کیا گیا ڈیٹا پاکستان میں سہولیات کی بہتر ترسیل اور جمہوری واقتصادی ترقی کی منصوبہ بندی کی بنیاد ثابت ہوگا۔ڈیجٹل مردم شماری کے عمل میں عسکری قیادت کا تعاون بھرپور رہا جس کی وجہ سے ایک مشکل ہدف مختصر مدت میں مکمل ہو سکا۔ مشترکہ مفادات کونسل سے ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی متفقہ منظوری کے بعد اگلا مرحلہ حلقہ بندیوں اور اگلے عام انتخابات پر مردم شماری کے اثرات کو آئین و قانون کے دائرے میں رکھنے کا ہے۔ملک کے حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کا عمل سست روی کا شکار نہ کیا جائے، حکومتی ذمہ دار اس نوع کے بیانات دے رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں میں تاخیر کا سامنا ہو سکتا ہے۔ زمانہ ٹیکنالوجی نے بدل دیا ہے ۔اب کمپیوٹر پر ایک ہفتے میں حلقہ بندیاں ممکن ہو چکی ہیں،حلقہ بندیوں کی آڑ میں یہ تاثر قطعی نہیں پھیلنا چاہئے کہ حکومت یا الیکشن کمیشن مردم شماری کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔الیکشن التوا کی صورت میں پری پول دھاندلی کے الزامات اگلے الیکشن کو متنازع بنا سکتے ہیں۔پاکستان کا مفاد اسی بات میں ہے کہ آئین میں بتائی گئی مدت میں نئے انتخابات کرائے جائیں۔موجودہ حکومت، اگلی نگران انتظامیہ اور الیکشن کمیشن خود کو آئین و قانون کی حدود میں رکھیں اور لوگوں کو آزادانہ ماحول فراہم کریں۔ڈیجیٹل مردم شماری کرانے کا کریڈٹ اسی صورت میں معتبر ہو گا جب اس کے فوائد عوامی بھروسے کی صورت میں سامنے آئیں۔
٭٭٭