پاکستان ہماری نظر میں، اس بربادی کا ذمہ دار کون!!!

0
63
کامل احمر

76سال بننے کے بعد اگر پاکستان تنزلی کا شکار ہے اور آنے والے وقت میں کسی قسم کی امید لگانا فضول ہے تو کیا ایسے ملک کو قائم رہنا چاہئے جس میں اداروں کے علاوہ دوسرے پاکستانی امریکہ اور لندن کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں اپنے کلچر کو چھوڑ کر آپے سے باہر ہو رہے ہیں پھر سے لکھنا پڑتا ہے کہ اللہ اور رسول کو قطعی بھول کر جو اپنی پہچان بنا رہے ہیں اسے دیکھ کر خوف آتا ہے ایک طرف مذہب کے پیچھے حج اور عمرہ کی دوڑ میں ہیں جو انھوں نے بچوں کے لئے تفریح گاہ بنا رکھا ہے۔ نیویارک میں پرانی تنظیم پاکولی ہے جو پہلے لوگوں کو میلے ٹھیلے فراہم کرتی رہی ہے اور اب چونکہ انہیں ریاست سے کثیر فنڈ مل گیا ہے تو وہ فنون لطیفہ کے نام پر پارٹیاں کرتے ہیں اپنے ہی تنظیم کے عہدیداروں کو تمغے اور سندیں دیتے ہیں کس بات کے یہ تو بات ہوئی اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو دے۔ انہیں یہاں کوئی شاعر کوئی لکھاری نظر نہیں آتا۔ یہ ہی حال ناساکائونٹی سے جڑے حضرات کا ہے انہیں بھی نظر آتا کہ تعلیم کے میدان میں جن بچوں نے ایکسیل کیا ہے ان کی بھی حوصلہ افزائی ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بلھے شاہ نے کہا ہے ”پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی !
ہتھ وچ پھڑکے تلوار نام رکھ لیا غازی
مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
اوبھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نہ کیتا راضی
اور آج جو کچھ پاکستان میں خرافات جاری ہیں عمران خان کو جیل میں بند کرکے اورPTIکو الیکشن سے باہر کرنے کی اس پر بھی بلھے شاہ نے صوفیانہ انداز میں لکھا ہے
چڈھدے سورج ڈھلدنے ویکھے
بجھے دیوے بلدے ویکھے
بلھے شاہ کی شاعری پڑھیں اگر پنجابی نہ بھی آتی ہو۔ ایک عام فہم زبان میں بات کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا یہ سب جو ہمارے زبردستی حکمران بنے بیٹھے ہیں نے کبھی پڑھا۔ پچھلے پچاس سالوں میں لوگوں نے کتابیں پڑھنا بند کردیں فنون لطیفہ مذہب کی بھینٹ چڑھا دیا اور آئی فون کی ایجاد نے قوم کو بے شعور، دماغ سے پیدل اور جذبے سے خالی بنا دیا آپس میں جو لگائو تھا وہ اس خرافات کی نذر ہوگیا کبھی ہمیں دس بارہ دوستوں کے فون یاد تھے اور آج صرف اپنا نمبر یاد ہے کسی اور کا نہیں، ٹیکنالوجی نے زندگی کو آسان بنانے کی ٹھانی لیکن ان کی نیت لوگوں کو بگاڑنے اور پیسے بٹورنے کی تھی۔ تو ایک روباٹ کی نسل پیدا ہوگئی جس سے ڈیل کرنے کو دل نہیں چاہتا یا یوں کہو ان کا دل بھی آپ سے ملنے یا فون کرنے کو نہیں چاہتا ان کے لئے زندگی بیوی، فون اور کار ہے یا سیاحت ان کا روزمرہ کا مشغلہ ہے۔
نوازشریف گاہے بگاہے ٹی وی پر آجاتے ہیں عوام کے سب سے بڑے ہمدرد یہ ہی ہیں چار سال پہلے وہ دودھ کی نہریں بہا کر گئے تھے اور اب چوتھی بار آئے ہیں عاصم منیر کا ہاتھ بٹانے وہ بھی آج کل اونچی اونچی چھوڑتے ہیں بلکہ جابل مطلق ہیں اپنے عہدے کا پاس نہیں، کہتے ہیں افواج پاکستان اور عوام ایک ہی ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہدلے نمک اور شکر ایک ہی ہے۔ فرماتے ہیں ہمیں پاک عوام کے ساتھ اپنی غیر متزلزل وابستگی پر فخر ہے۔” انہوں نے تمام ملائوں کو بلا کر جانا کہ یہ ہی عوام ہیں ادھر ان کےISPRجن کا کام ہی تعریف اور غلط بیانی ہے کہہ رہے تھے سال2023اور آنے والا سال2024بہت اہمیت کا حامل ہے۔ پوچھنا یہ ہے ملک اور عوام کو برباد کرنے کیلئے مزیڈ کیا پروگرام ہے کاش انہیں معلوم ہوتا عوام ایک شکست خوردہ قوم بن چکی ہے لیکن یہ1971کے بعد ہوا جب ہماری آرمی شکست خوردہ بن گئی بغیر لڑے عقل ہوتی تو مجیب الرحمن کو بلا کر کہتے ”بھائی تم اور ہم مختلف ہیں تم ایک قوم ہو اور ہم تعصبی ٹولہ ہیں جس طرح ملائیشیا، انڈونیشیا سے علیحدہ ہوا تھا ویسے ہی ہم جدا ہوتے ہیں سنبھالو بنگلہ دیش لیکن اس کے لئے شعور کی ضرورت تھی اور یہ چیز آج کے اور65کے بعد کے جنرلوں میں آج کے شہد کی طرح ہے جو اصلی تو ہے لیکن نقلی سے بدتر۔
آج جیو پر سلیم صافی آئے ان کے لئے ہی کہا تھا کسی سیانے نے چور بنا دے مگر چور کی شکل نہ دے لیکن یہ اور دوسرے کرائے کے ٹٹو ہیں جو چاہے کرائے پر لے لے پہلے نوازشریف، بی بی مریم، شہباز شریف کی تعریف اور ان کے دور کی ترقی کا بتایا اور پھر ایک جانٹا دھر دیا یہ کہہ کر ”میاں صاحب کی سوچ پنجاب سے شروع ہوتی ہے اور پنجاب پر ختم ہوتی ہے۔ غزہ میں اتوار کی رات گئے تک غازہ کےMEN MADEکھنڈرات اور تباہ شدہ عمارات میں اسرائیلی فوجی فلسطینیوں کو ڈھونڈتے رہے۔ کوئی باقی نہیں بچا تھا۔ حسب معمول اقوام متحدہ ایک کمزور لاغر انسان کی طرح رو رہا تھا۔ لیکن ہم ہالی وڈ کی مشہور اور عوام(دنیا بھر کے) میں مقبول ترین اداکارہ انجلینا جولی کھل کر برس پڑیں عالمی انصاف اور انسانی حقوق کے دوغلے پن پر شامی فلمساز کو انٹرویو میں کہا”دنیا تجارتی مفادات کے اصول پر چل رہی ہے اور کالونیزیم ختم ہونے کے باوجود ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور آسٹریلوی پاکستانی نژاد کرکٹر عثمان خواجہ کو بھی خراج تحسین پیش کرتے چلیں جنہوں نے غزہ میں اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہونے والوں کے غم میں اپنے جوتے پر فلسطینی جھنڈا کا اسٹکر لگایا ہوا تھا لیکنICCنے جو انڈیا کے کنٹرول میں ہے۔ انہیں میچ سے باہر کردیا۔ آسٹریلوی کرکٹرز نے انکا ساتھ دیتے ہوئے بیانات دیئے۔ سراج الدین سوشل میڈیا پر آئے اور حقیقت پسندانہ بات کہہ گئے ”ہم بھول چکے ہیں بولنا، سوچنا اور سمجھنا ہم وہ کچھ کہتے ہیں جو بولنا نہیں چاہئے الفاظ کا چنائو آپ کی تربیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اور جب آپ احسن اقبال اور طلال چودھری کو سنتے ہیں تو جیسے رال ٹپک رہی ہو۔ یقین کرلیں ان کا وہ کہہ رہے تھے”جب ہماری حکومت آئے گی تو امن اور سکون آئے گا۔” یہ تو ہے عاصم منیر کی بدولت یہ کیوں نہیں کہا خوشحالی آئے گی۔”شاید ذہن میں میاں صاحب اور آرمی جنرل ہونگے جو اس ملک میں خوشحالی نہیں آنے دینگے ان کے ساتھ ہی میڈیا پر سابق گورنر محمد زبیر کو بھی ایک گھنٹہ بولنے کا وقت دیا ان کی باتوں سے لگتا تھا ملک کو گلستان بنا کر گئے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے وہ گل کھلا کر گئے ہیں، احسن اقبال نے شاہ محمود کی تذلیل پر کہا۔ ہم نے مزاحمت نہیں کی اور جیل گئے۔ شاہ محمود نے مزاحمت کی تو ایسا ہوا باوقار طریقے سے ان کے ساتھ چلے جاتے۔ اس احمق سے کون پوچھے گا کہ پنجاب پولیس نوازشریف کی ہے انہیں گھر میں تربیت نہیں ملی اور وہ زرخرید غلام ہیں نون لیگ کے ہمارے میڈیا کے دوست نے اپنی پوسٹ میں حقیقت بیان کردی۔ ”یہ دیس ہمارا ہے یہاں دستور نرالا ہے۔ اعظم سواتی کو ایک قابل اعتراض ٹویٹر پر پولیس نے پکڑا اور عدالتی ریمانڈ پر رکھا جاتا ہے۔ تشدد کیا جاتا ہے برہنہ اور قابل اعتراض ویڈیو بنا کر وائرل کی جاتی ہیں۔ اور شام کو میڈیا پر پرائم ٹائم میں بحث کی جاتی ہے” ۔
لکھتے چلیں کہ اپنے اٹلی نژاد دوست کو سال کی مبارکباد دی تو اس نے کہا غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہیں دیکھ رہے جب یہ سال ہیپی ہوگا تو ہم خوشیاں منائینگے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here