امریکہ میرے آگے!!!

0
126
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

مرزا غالب نے کہا تھا!
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
اقبال کھوکھر بڑے جہاں دیدہ اور گرم و سردِ جہاں چشیدہ شخصیت ہیں، انہوں نے مرزا غالب کی دنیا مرے آگے کی بجائے امریکہ میرے آگے اپنی کتاب کا عنوان رکھا ہے۔ اِس کی دو وجوہات ہیں، اول وہ کئی سال سے نیویارک میں مقیم ہیں، کبھی امریکہ ان کے آگے ہوتا ہے اور کبھی وہ اپنی ذہانت و فطانت سے امریکہ کے آگے ہوتے ہیں، آپ نامور ادبی، سماجی اور کاروباری شخصیت ہیں، آپ بنیادی طور پر کالم نگار اور صحافی ہیں، آپ کے کالم امریکہ اور پاکستان کے کئی روزناموں میں چھپتے ہیں۔ آپ ادیب اور دانشور ہیں ۔ نہایت مخلص ، انسان دوست اور مہذب شخصیت ہیں۔آپ کے اخلاص کا یہ عالم ہے کہ ہر کس و ناکس سے نہ صرف ہاتھ ملاتے ہیں بلکہ آگے بڑھ کر اسے گلے بھی لگاتے ہیں۔ اِن کے اِس والہانہ پن پر میں نے ایک بار انہیں پیارے دوست سید عارف مرحوم کا یہ شعر سنایا !
اِتنے مخلص بھی نہ بن جا کہ پچھتانا پڑے
لوگ اخلاص کو ٹھکرا بھی دیا کرتے ہیں
لیکن ان کی انسان دوستی ، نجابت و شرافتِ خاندانی اور مخلصانہ اندازِ زندگی پر اِس شعر کا کوئی جادو نہ چلا، وہ جیسے تھے ویسے ہی ہیں اور یہ شرفِ انسانی ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ میر تقی میر نے ایسے ہی نایاب و نادر لوگوں کے بارے میں کہا تھا!
ملتے کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
آپ کی تحریروں میں جہاں اشفاق احمد کی سنجیدگی جھلکتی ہے وہاں مشتاق یوسفی جیسا مزاحیہ اندازِ تحریر بھی ملتا ہے۔ جہاں سنجیدہ تجزیہ ہوتا ہے وہاں مزاحِ لطیف کی جھلکیاں بھی ہوتی ہیں۔ میری دوستی کا اِن سے تعلق یوں ہے جیسے دو جان وایک قالب ہو۔ آپ کی تحریروں کا وصفِ خاص یہ ہے کہ آپ مذہبی، سیاسی، لسانی اور گروہی تعصب سے بالا تر شخصیت ہیں۔ آپ حرمتِ حرف کے پاسدار ہیں اور بقولِ شورش کاشمیری حرمتِ قلم کو حرمتِ مادرسمجھتے ہیں۔ کتاب کے عنوان امریکہ میرے آگے کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امریکہ سپر پاور( Super Power) کے طور پر دنیا بھر میں مانی اور جانی جاتی ہے، اِس لیے مصنف کی رائے میں جس نے امریکہ دیکھا گویا اس نے ساری دنیا دیکھ لی کیونکہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ہوتا ہے،یہ وہ سیاسی محاورہ ہے جو سکہ رائج الوقت ہے۔ America is the Land of opportunities کا وہ عالمی سحر ہے کہ کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجاست والا معاملہ ہے۔ اِس کتاب میں نامور ادبی، سیاسی، سماجی شخصیات کی تصاویر، ملاقاتیں اور انٹرویوز شامل ہیں جو بہت دلچسپ اور معلوماتی ہیں۔ سیاسی شخصیات میں پاکستان کے سابق وزرائے اعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید ، جناب عمران خان، اور موجودہ وزیرِاعظم پاکستان جناب شہباز شریف کے انٹرویوز شامل ہیں۔ سیاست دانوں میں سابق وزیرِ اعلی پنجاب سینیٹر ممتاز دانشور اور میرے نظریاتی و ذاتی دوست حنیف رامے مرحوم کے انٹرویوز کے علاوہ ، بلاول بھٹو زرداری اور ممتاز کشمیری حریت پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق کے انٹرویوز شامل ہیں۔ شاعروں میں سید ضمیر جعفری ، جوہر میر اور احمد فراز کی تصاویر اور انٹرویوز شاملِ کتاب ہیں۔ تصاویر سے ایک شعر یاد آیا
چند تصاویرِ بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
خوشا نصیب کہ یہ تصویرِ بتاں اقبال کھوکھر نے زندگی میں ہی شائع کر دیں اور قضی زمیں بر زمیں است کے مصداق حق بحق دار رسید کا عملی مظاہرہ اِس کتاب میں پیش کر دیا۔ رہا معاملہ حسینوں کے خطوطوالا تو ایسا کوئی معاملہ اقبال کھوکھر کے ساتھ نہیں ہے۔ وہ حسینوں کو نہ خطوط لکھتے ہیں اور نہ ہی حسینوں کے خطوط وصول کرتے ہیں بلکہ وہ حسینوں سے ملاقاتوں کے قائل ہیں اور یہ کارِ نیک خوش اسلوبی سے ادا کر کے حافظ شیرازی کا یہ شعر گنگناتے ہیں
نفسِ بادِ صبا مشک فشاں خواہد شد
عالمِ پیر دگر بارہ جواں خواہد شد
اِس کتاب میں ممتاز سماجی کارکن عبد الستار ایدھی کا انٹرویو بھی شامل ہے جو نیویارک میں اقبال کھو کھر نے میری موجودگی میں لیا تھا۔یہ کیا بات ہے کہ نیویارک میں ہم نے مِل کر ایک ہفت روزہ اخبار پاکستان ویکلی ( Pakistan Weekly) شائع کیا جو انگریزی اور اردو زبان میں تھا، میں اس کا چیف ایڈیٹر تھا، میاں اشرف مرحوم اس کے ایڈیٹر اور اقبال کھوکھر نگرانِ اعلیٰ تھے۔ اِس ہفت روزہ کی پہلی اشاعت پر میری فرمائش پر محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ نے انگریزی زبان میں تعریفی و توصیفی پیغام دیا تھا جو اخبار کے صفحہ اول پر شائع ہوا اور نیویارک میں محترمہ کی آمد پر میں نے اور اقبال کھوکھر نے بطورِ تحفہ انہیں یہ اخبار پیش کیا جس پر وہ بہت خوش ہوئیں ۔
اقبال کھوکھر کی نظر شاہین کی نظر ، دماغ افلاطونی اور دل پاکستانی ہے۔ ان کا جسم امریکہ اور دل پاکستان میں رہتا ہے۔ وہ پاکستان کے مخدوش حالات پر نوحہ کناں رہتے ہیں۔ ان کا قلم برشِ شمشیر ہے اور صریرِ خامہ نہ صرف نوائے سروش ہے بلکہ پیامِ صداقت ہے۔ میری رائے میں یہ کتاب اہلِ علم و ادب، اہلِ نقد و نظر اور سیاسی و سماجی احباب و ارباب کے وہ تحف درویش ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نبخشد خدائے بخشندہ
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here